قوم پرستی کے جنون کے سہارے ’سیاسی لہر‘ کی تلاش...م. افضل
حکمراں پارٹی کے لوگ فوجیوں کی قربانی پر سیاست کر رہے ہیں۔ درحقیقت لوگوں میں قوم پرستی کا جنون پیدا کرکے، وزیراعظم اپنے حق میں سیاسی لہر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پلوامہ میں شہید ہوئے فوجیوں کا انتقام لے لیا گیا۔ ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی کی ہر طرف ستائش ہو رہی ہے۔ بلاشبہ ہماری تینوں افواج کسی بھی طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کئی موقعوں پر انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے، پلوامہ میں جو کچھ ہوا اس کے خلاف پورے ملک میں غم وغصہ تھا۔ اس غم وغصہ میں ملک کا ہر شہری شریک تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو اس سانحہ نے پورے ملک کو اتحاد کی دوڑ میں باندھ دیا۔ یہ اس سانحہ کا روشن پہلو ہے لیکن اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ سانحہ کے بعد سے غیر محسوس طریقہ سے منصوبہ بند انداز میں اس سانحہ اور اب فضائیہ کی کارروائی کو ’قوم پرستی‘ کا رنگ دینے کی خطرناک کوشش ہو رہی ہے۔
’قوم پرستی‘ حب الوطنی کا دوسرا نام ہے لیکن جس ’قوم پرستی‘ کی تشہیر کی جا رہی ہے یہ وہ قوم پرستی ہے جس کی بنیاد آر ایس ایس نے ہندوتوا پر رکھی ہے۔ اوپر ذکر آچکا ہے کہ پلوامہ میں فوجیوں پر جب حملہ ہوا تو پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ اس سانحہ پر ہر شہری کی آنکھ نم تھی اور لوگ گھروں سے باہر نکل کر اس دکھ کی گھڑی میں ملک وقوم کے تعلق سے یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے مگر کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو بڑی خوبصورتی سے اس کو ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان لوگوں کی طرف سے یہ باور کرانے کی کوشش ہو رہی تھی کہ مسلمانوں نے یہ حملہ کیا ہے حالانکہ حملہ میں شہید ہونے والے فوجیوں میں مسلمان فوجی بھی شامل تھے مگر اس کی تشہیر نہیں ہوئی۔ میڈیا نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ وطن کے لئے جان دینے والوں میں مسلم فوجی بھی شامل ہیں۔ اس کی جگہ انہوں نے بھی اس سانحہ میں قوم پرستی کا رنگ بھرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
قوم پرستی کے اس بے ہنگم شور میں کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ جب حملہ کی خبر آئی تو ہمارے وزیراعظم کیا کر رہے تھے؟ اس کا خلاصہ بعد میں کانگریس نے کیا کہ حملہ کی خبر آنے کے بعد بھی وزیراعظم کپڑے بدل بدل کر اپنے اوپر بننے والی ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ چلیے بی جے پی کی یہ دلیل مان بھی لیں کہ وزیراعظم کو بروقت حملہ کی اطلاع نہیں مل پائی لیکن حملہ کے دن سے اب تک ان کا جو عمل ہے کیا اس پر غور کیے جانے کی ضرورت نہیں؟ حملہ کے دوسرے ہی دن انہوں نے جھانسی میں ایک عوامی ریلی کو خطاب کیا تھا، یہ سلسلہ رکا نہیں۔ انہوں نے مسلسل عوامی ریلیاں کیں اور ان کی بات چیت اور چہرے مہرے سے بھی ایسا نہیں لگا کہ انہیں فوجیوں کی شہادت پر کسی طرح کا کوئی دکھ ہے۔ دوسری طرف ان کے چاہنے والے پورے ملک میں پلوامہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے، گلیوں اور چوراہوں پر نہ صرف پتلے پھونکے بلکہ اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے جا رہے تھے۔
ادھر جب ہندوستان کی فضائیہ نے پاکستان میں گھس کر حملہ کیا اور جیش محمد کے ٹھکانوں کو تباہ کیا، اِدھر ہمارے وزیراعظم اس حملہ کو سیاسی طورپر کیش کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑے۔ راجستھان کے چورو میں انہوں نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے پلوامہ حملہ کا بدلہ لے لیا، وہاں سے لوٹے تو دہلی میٹرو میں سوار ہوگئے اور لوگوں سے کامیاب حملہ پر شاباشی لیتے رہے۔ ’میڈیا‘ بھی اسے لائیو دکھانے کے لئے پہلے سے تیار تھا۔ کامیاب حملہ کا کمال ہماری ہندوستانی فضائیہ نے دکھایا تو اس کا کریڈٹ بھی اسے جانا چاہیے مگر اس کا الٹ ہو رہا ہے، سارا کریڈٹ خود ہمارے وزیراعظم لے رہے ہیں اور ملک کا ’میڈیا‘ ان کی ہاں میں ہاں ملاکر اعلان کر رہا ہے کہ مودی ہیں تو یہ سب کچھ ممکن ہے حملہ میں جیش محمد کے مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد کتنی ہے ہر چینل کا دعویٰ الگ الگ ہے حالانکہ اصولی طورپر میڈیا کو وہی بتانا چاہیے تھا، سرکاری طور پر جس کی تصدیق کردی جاتی مگر حملہ کے بعد ہی چینلوں میں ہلاک شدہ دہشت گردوں کی تعداد بتانے کی ہوڑ لگ گئی، گویا ان چینلوں کو اس بات کی پوری آزادی ہے کہ جو چاہیں دکھائیں اور جوچاہیں بتائیں، بس شرط یہ ہے کہ ایسا کرنے سے فائدہ بہر صورت وزیراعظم اور ان کی پارٹی کو ہونا چاہیے۔
فضائیہ حملہ سے مودی حامیوں (ان میں آر ایس ایس کا کیڈر بھی شامل ہے) کو قو پرستی کی تشہیر کا ایک دوسرا مؤثر ذریعہ مل چکا ہے۔ اب یہ لوگ ’شوریہ دیوس‘ منا رہے ہیں اور اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ مودی ہی پاکستان کو سبق سکھانے کی طاقت رکھتے ہیں اور مودی کے وزیراعظم رہنے سے ہی ملک کا تحفظ ممکن ہے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر بی بی سی کا ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوا ہے جس میں حملہ کی سچائی اجاگر کی گئی ہے۔ یہ ایک گراؤنڈ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کوئی ہلاکت ہوئی ہی نہیں مگر سارے حقائق پر پردہ ڈال کر 300 دہشت گردوں کو مارگرانے کی تشہیر کی جارہی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ یہ سب فوجی کارروائی کا حصہ ہے، ملک کی سلامتی اور سرحدوں کے تحفظ کے لئے کیا کرنا ہے اور کیا کیا جانا چاہیے۔ یہ فوج کی اسٹریٹجی کا حصہ ہے مگر اسے مودی کا کارنامہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر کانگریس نے گجرات میں ہونے والا ورکنگ کمیٹی کا اہم اجلاس ملتوی کردیا مگر وزیراعظم کی انتخابی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ جس روز پاکستان کی فضائیہ نے ہماری حدود کی خلاف ورزی کی اور ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کے ایف۔16 طیارہ کو مار گرایا تو اس کوشش میں ہمارا مگ طیارہ کریش ہوگیا اس کے پائلٹ کو پاکستان نے گرفتار کرلیا۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے جانباز پائلٹ کی بہ حفاظت واپسی کے لئے سفارتی کوششیں کرتے مگر اس کی جگہ وزیراعظم ’کھیلو انڈیا‘ ایپ کا افتتاح کر رہے تھے اور ون کمانڈر ابھینندن کی واپسی کے لئے جب ملک کا ہر شہری دعائیں مانگ رہا تھا، اپیلیں کررہا تھا تو مودی جی اپنے کارکنوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بوتھ کو مضبوط کرنے کا گُر بتا رہے تھے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اور کشمیر کے نام پر الیکشن جیتنے کی افسوسناک کوشش ہو رہی ہے اور حکمراں پارٹی کے لوگ فوجیوں کی قربانی پر سیاست کر رہے ہیں۔ درحقیقت لوگوں میں قوم پرستی کا جنون پیدا کرکے، وزیراعظم اپنے حق میں سیاسی لہر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خفیہ رپورٹیں آچکی ہیں کہ اس بار کوئی لہر نہیں، مودی سرکار کے خلاف عوام میں شاید ناراضگی ہے اور بی جے پی الیکشن ہار رہی ہے۔ چنانچہ اب مصنوعی قوم پرستی کا جنون پھیلاکر فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی ہرممکن کوشش ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحدوں پر ہمارے فوجی شہید ہو رہے ہیں اور وزیراعظم اپنی چناوی ریلیاں بھی کر رہے ہیں اور فوج کی کامیابیوں کا سہرا اپنے سرباندھنے کی ناکام کوشش بھی کر رہے ہیں۔
گزشتہ 25 فروری کو انگریزی کے مشہور اخبار’ہندوستان ٹائمس‘ کے اندرونی صفحات پر نیلانجن سلکر(Neelanjan Sircar) کی ایک تجزیاتی رپورٹ ’’بی جے پی کو ایک اور مودی لہر کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس بار بی جے پی کے حق میں کوئی لہر نہیں ہے اور 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں جن ریاستوں کے سہارے اس نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی، اب انہیں ہار ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ریاستی سطح کے نتائج قومی سطح پر اثرانداز نہیں ہوتے مگر اس رپورٹ میں اعدادوشمار کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ 2014 کے الیکشن میں چھتیس گڑھ، گجرات، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی 91 پارلیمانی نشستوں میں سے 88 پر بی جے پی نے کامیابی درج کی تھی کیونکہ یہاں اس کی سرکاریں تھیں مگر اس بار منظرنامہ بدلا ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر مودی کی مقبولیت میں 5 فیصد گراوٹ بھی ہوتو اس بار اسے زیادہ سے زیادہ ان ریاستوں میں 56 سیٹیں مل سکتی ہیں اور اگر اس میں مزید گراوٹ آتی ہے تو پھر اسے زیادہ سے زیادہ 37سیٹیں ہی مل سکتی ہیں۔
اترپردیش اور بہار کے نتائج کو لے کر بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے۔ اگرچہ ان ریاستوں میں ہونے والے خسارہ کو بی جے پی نے مغربی بنگال، آسام اور شمال مشرق کی دوسری ریاستوں سے پورا کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر اس میں بھی اسے اب تک ناکامی ہاتھ لگی ہے۔ ’شہریت ترمیمی بل‘ لانے کے بعد آسام اور تمام شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف عوامی غم وغصہ بڑھ گیا ہے یہاں تک کہ بہت سی حلیف پارٹیاں بھی اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے وزیراعظم کی جو سیاسی سرگرمیاں ہیں وہ بلاسبب نہیں ہیں۔ اب لوگوں کے دل دماغ میں ’قوم پرستی‘ کا جنون لاکر وزیراعظم اپنے حق میں سیاسی لہر بنانے کی خطرناک کوشش کر رہے ہیں۔ اقتدار کی یہ اندھی ہوس، ملک کو کہاں لے جائے گی اس پر سوچنے کے لئے نہ تو آر ایس ایس تیار ہے اور نہ بی جے پی کے لوگ کیونکہ انہیں کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہیے اور اس کے لئے وہ ملک کی سلامتی اور اتحاد کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔