یوگی راج میں سیاسی اور ملی قیادت کو چہار جانب سے گھیرنے کی کوشش
اعظم خان پر 80 سے زیادہ مقدمات کے بعد مظفرنگر میں مولانا نذیر کے مدرسہ کا ایک حصہ منہدم، میرٹھ میں شاہد اخلاق کے اسلحہ کا لائسنس منسوخ، کیرانہ میں ناہید حسن کی گرفتاری کے لئے چھاپہ ماری
اتر پردیش میں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے تبھی سے اس طرح کی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں، جو سیاسی انتقام پر تو مبنی ہیں ہی اس سے فرقہ پرستی کی بھی بو آتی ہے۔ اس ضمن میں جہاں سیاسی رہنماؤں کے خلاف جابرانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہیں علماء اور ملی اداروں کے خلاف انتظامیہ کارروائی کرنے سے باز نہیں آ رہی۔ اس کے علاوہ گوشت اور چمڑے کے کاروبار کو تباہ کرنے جیسے اقدام بھی کیے گئے جن کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ متاثر ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں سماجوادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان کے خلاف رامپور انتظامیہ اور پولس کی جانب سے یکے بعد دیگرے لگاتار مقدمات درج کیے گئے۔ ان پر چوری، ہیرا پھیری اور زمین پر قبضہ سے لے کر چھیڑ خانی تک کے الزامات عائد کیے گئے۔ اعظم خان کے خلاف 85 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور آج بدھ کے روز الہ آباد ہائی کورٹ نے ان میں سے 29 معاملات میں ایف آئی آر اور گرفتاری پر روک لگا دی ہے، جبکہ ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ حالانکہ حتمی نہیں ہے اور یہ اعظم خان کے لئے ایک وقتی راحت ہے پھر بھی عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خلاف سیاسی انتقام کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
مغربی اتر پردیش میں تنہا اعظم خان ہی ایسے رہنما نہیں ہیں جن کی نیند آج کل حرام ہے۔ بلکہ کئی اور بھی رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ دراز ہے۔ اب اسے اتفاق کہیں یا سازش کہ یہ تمام رہنما مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں!
مظفر نگر سے ملحقہ شاملی ضلع کے کیرانہ حلقہ انتخاب سے رکن اسمبلی ناہید حسن کو گرفتار کرنے کے لئے پولس چھاپہ ماری کر رہی ہے اور اب تک ان کے خلاف13 مقدمہ درج ہو چکے ہیں۔
میرٹھ سے سابق رکن پارلیمان شاہد اخلاق کے بھائی اور ان کے بیٹے کے خلاف بھی سنگین دفعات میں مقدمے درج ہو چکے ہیں۔ جبکہ خود شاہد اخلاق کے اسلحہ کا لائسنس میرٹھ انتظامیہ کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کی کارروائیاں سیاسی رہنماؤں تک ہی محدود نہیں ہیں، اس کی مثال جانسٹھ میں واقع مولانا نذیر کا مدرسہ ہے۔ اس مدرسہ کا نام تعلیم القرآن ہے، اس کا ایک حصہ غیرقانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔ مولانا نذیر کو علاقہ میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں مظفر نگر کے کوال میں ہونے والے فساد کے دوران سماجوادی پارٹی کی حکومت میں خصوصی طیارے کے ذریعے لکھنؤ بلایا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے خود آپ سے امن و امان کی فضا بنانے کے حوالہ سے بات چیت کی تھی۔ علاوہ ازیں اکھلیش یادو نے مولانا نذیر کو ’وائی‘ زمرے کی حفاظت بھی فراہم کی تھی۔ مولانا نذیر کا مدرسہ تعلیم القرآن فساد کے دوران زیر بحث رہے کوال گاؤں سے محض تین کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
ایس ڈی ایم جانسٹھ اندر کانت دیویدی کے مطابق محلہ گنج میں واقع مدرسہ تعلیم القرآن کا ایک حصہ ایک عوامی نالے پر تجاوز کر کے تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی لئے انتظامیہ کی جانب سے بھاری پولس فورس کے ہمراہ مدرسہ کے کچھ کمروں کو منہدم کردیا گیا ہے۔
کچھ روز قبل بھارتیہ کسان یونین (بی کے ڈی) کے سربراہ نریش ٹکیت نے بھی مولانا نذیر سے ملاقات کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ تاہم مولانا نذیر نے اتنا ضرور کہا کہ امن و امان برقرار رہے اس لئے انہوں نے یہ سمجھوتہ کیا۔
جمعیۃ علما ہند کے مظفر نگر ضلع سکریٹری موسیٰ قاسمی کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں کی گئی اور مدرسہ کے جس حصہ کا انہدام کیا گیا ہے اس کے حوالہ سے آپسی مفاہمت ہو گئی تھی۔
ادھر، میرٹھ میں سابق رکن پارلیمان کے خلاف بھی پولس نے شکنجہ کسا ہوا ہے اور ان کے اسلحہ کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ میرٹھ کے گذری بازار محلہ میں حاجی شاہد اخلاق کے خاندان کا پڑوس میں جھگڑا ہو گیا تھا جس کے دوران فائرنگ ہوگئی۔ واقعہ میں دو لوگ زخمی بھی بتائے جا رہے ہیں۔ بعد میں دونوں فریقین میں مفاہمت ہو گئی پھر بھی پولس نے معاملہ کی سنجیدگی کے پیش نظر اپنی طرف سے مقدمہ درج کر لیا۔
سی او (سرکل آفیسر) کوتوالی دنیش شکلا کے مطابق سابق رکن پارلیمان کے بھائی راشد اخلاق کے بیٹے ثاقب اور بھتیجے یاسر سمیت پانچ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی کی گئی ہے۔
ادھر، کیرانہ سے رکن اسمبلی ناہید حسن کے خلاف کارروائی عروج پر ہے۔ پولس نے ناہید کی گرفتاری کے لئے 11 ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور ان کے خلاف 13 مقدمات درج ہیں۔ دراصل گزشتہ ہفتہ ان کی گاڑی کے کاغذات چیک کرنے کے حوالہ سے ایس ڈی ایم کیرانہ سے ان کی کہا سنی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ناہید حسن کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری ہو گیا اور بھاری تعداد میں پولس فورس انہیں گرفتار کرنے بھی پہنچ گئی۔ حالانکہ وہ اپنی رہائش پر موجود نہیں ملے۔ شاملی کے پولس سپرنٹنڈنٹ اجے کمار کے مطابق ان کی عبوری ضمانت کی درخواست عدالت نے مسترد کر دی ہے۔ ان کی لوکیشن الہ آباد اور لکھنؤ میں معلوم ہوئی ہے جہاں ان کی گرفتاری کے لئے ٹیم بھیجی گئی ہے۔
سابق وزیر اور سماجوادی پارٹی کے رہنما کلدیپ اجول کے مطابق حکومت کی طرف سے اس طرح کی جو کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں وہ سیاسی انتقام کے جذبہ سے نہیں بلکہ بدنیتی سے کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کو انتقامی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کیوںکہ سماجوادی پارٹی کی طرف سے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے لوگوں میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔
ناہید حسن کی والدہ اور مغربی یو پی کے سابق قدآور رہنما منور حسن کی اہلیہ تبسم حسن جوکہ کیرانہ سے رکن پارلیمان رہ چکی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’حقیقت سب کے سامنے ہے، جسے طاقت کے نشہ میں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میرے شوہر کی طرح میرا بیٹا بھی بہادر ہے۔ ہم کسی کے ظلم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Sep 2019, 8:10 PM