کیا واقعی حکومت دل اور دلّی کی دوری ختم کرنا چاہتی ہے؟... سہیل انجم
کشمیر میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جائے تاکہ بے روزگار نوجوانوں کو کام ملے اور انھیں ایک باعزت زندگی گزارنے کے مواقع ملیں۔ جب تک یہ سب نہیں ہوگا دل اور دلّی کی دوری دور نہیں ہوگی۔
وزیر اعظم نریندر مودی قافیہ بندی کرکے عوام کو بیوقوف بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب سے وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں یہ کام بہت اہتمام کے ساتھ کر رہے ہیں۔ حالیہ مثال اگر دینی ہو تو جب تک دوائی نہیں تب تک ڈھلائی نہیں، دوائی بھی اور کڑائی بھی اور جہاں بیمار وہیں اُپچار وغیرہ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ وہ جب بھی قوم سے خطاب کرتے ہیں تو پہلے سے ہی کوئی نہ کوئی جملہ سوچ کے رکھتے ہیں۔ ان کی اس قافیہ بندی یا جملہ سازی سے عوام تو سحرزدہ ہوتے ہی ہیں سیاست داں اور تعلیم یافتہ افراد بھی اسی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اس کا ذکر بھی خوب ہوتا ہے اور گودی میڈیا اس کو اپنا موضوع بھی بنا لیتی ہے۔ ان کی تازہ جملہ سازی کشمیری رہنماوں کے ساتھ ملاقات کے دوران اس وقت سامنے آئی جب انھوں نے کہا کہ وہ دل کی اور دلّی کی دوری ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میٹنگ سے باہر آنے والے رہنماوں نے باربار اس جملے کو دوہرایا۔ ایسا لگا کہ جیسے وہ بھی وزیر اعظم کی قافیہ بندی یا جملہ سازی کے سحر میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے بھی اس جملے کو کافی اہمیت دی۔
یہ بھی پڑھیں : حکومت سوشل میڈیا سے اتنی خوف زدہ کیوں ہے؟... سہیل انجم
لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی وزیر اعظم دل کی اور دلّی کی دوری کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کشمیری عوام کے ردعمل اور رہنماوں کے بیانات کا جائزہ لیں تو ایسا نہیں لگتا کہ وہ اس جملے پر یقین کرنے کو تیار ہیں۔ جب وزیر اعظم کی جانب سے کشمیری لیڈروں کو میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی تو کہا گیا کہ اس کا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ کشمیری رہنماوں نے اس کا یہ مطلب نکالا کہ جب ایجنڈہ نہیں ہے تو وہ ہر وہ بات کہہ سکتے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کا معاملہ بھی اٹھا سکتے ہیں اور حکومت سے ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ پی ڈی پی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس معاملے کو اٹھایا بھی اور کہا کہ دفعہ 370 کا خاتمہ غیر جمہوری و غیر آئینی تھا۔ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ لیکن دیگر رہنماوں نے اسے یہ کہتے ہوئے اٹھانے سے گریز کیا کہ چونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس لیے اس پر گفتگو نہیں کی جا سکتی۔
کشمیری رہنما تو اپنے دل میں بہت کچھ ارمان لے کر گئے تھے۔ لیکن میٹنگ میں یہ اندازہ ہوا کہ یہ بات درست نہیں تھی کہ میٹنگ کا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میٹنگ کا ایجنڈہ تھا اور وہ تھا ڈی لمیٹیشن یعنی حد بندی کا معاملہ۔ حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے حد بندی کا کام مکمل ہو جائے اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں گے اور پھر ریاستی حیثیت کی بحالی پر غور کیا جائے گا۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔ حالانکہ کشمیری رہنماوں نے کہا کہ پہلے ریاستی حیثیت کی بحالی ہو اس کے بعد انتخابات ہوں اور پھر حد بندی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ملک کے بقیہ حصے میں ابھی حد بندی نہیں ہو رہی ہے وہاں 2026 میں ہوگی اور پھر آسام میں بھی کشمیر کے ساتھ حدبندی کی بات کہی گئی تھی لیکن وہاں پہلے الیکشن کرایا گیا اور حد بندی کو ملتوی کر دیا گیا تو پھر کشمیر میں پہلے حدبندی پر کیوں زور دیا جا رہا ہے۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کو ملک سے جوڑنا اور ملک کے ساتھ ملانا ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ دوسری ریاستوں سے الگ معاملہ کیا جا رہا ہے۔ بعض لیڈروں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے سات نشستیں بڑھائی گئی ہیں ا س لیے پہلے حد بندی کرائی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ سات نشستوں کے اضافے یا حدبندی پر زور کیوں دیا جا رہا ہے اس سلسلے میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ دراصل حکومت ریاست کی سیاست پر کشمیر کی بالادستی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کشمیر میں نشستوں کی تعداد زیادہ ہے اور جموں وغیرہ میں کم ہے۔ جس کے منتخب ارکانِ اسمبلی کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہ وہیں کا وزیر اعلیٰ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر میں آبادی زیادہ ہے مگر رقبہ جموں وغیرہ کا بڑا ہے۔ اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ کم از کم دونوں خطوں کی حیثیت برابر کر دی جائے تاکہ بی جے پی کو وہاں کے اقتدار پر گرفت کا موقع مل سکے۔ لیکن بعض دیگر ماہرین کی رائے ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
بہرحال حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ پہلے حدبندی ہوگی۔ اس کے بعد انتخابات ہوں گے اور پھر ریاست کی حیثیت کی بحالی پر غور کیا جائے گا۔ لیکن کشمیری رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ پہلے انتخابات ہوں اور ریاست کی حیثیت بحال کی جائے اور پھر حدبندی ہو۔ لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ ایسا ہوگا۔ وہی ہوگا جو حکومت چاہتی ہے۔ وزیر اعظم نے شرکائے میٹنگ پر اسی سلسلے میں زور دیا ہے۔ یہ دراصل بی جے پی کا اپنا ایجنڈہ ہے اور وہ اس سے ہٹنے والی نہیں ہے۔
جہاں تک دفعہ 370 کی واپسی کا معاملہ ہے تو یہ بھی بعید از امکان ہے۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کا کہنا ہے کہ اس حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ دفعہ 370 کو بحال کر دے گی احمقانہ بات ہوگی۔ یہ تو ان لوگوں کا پرانا ایجنڈہ رہا ہے اور اب ستر برسوں میں انھیں یہ موقع ملا کہ اس ایجنڈے پر عمل کریں۔ لہٰذا اس حکومت میں اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ البتہ ہم اس کی قانونی لڑائی لڑیں گے اور اس کی بحالی کے لئے اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ جبکہ پی ڈی پی کی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک دفعہ 370 کی بحالی نہیں ہو جاتی وہ انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیں گی۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں داخل ہیں۔ لیکن نہ تو سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اس سلسلے میں کوئی دلچسپی دکھائی نہ سابق چیف جسٹس ایس آر بوبڈے نے اور نہ ہی موجودہ چیف جسٹس ایس وی رمنا نے اب تک کوئی دلچسپی دکھائی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ چھوٹے چھوٹے معاملات پر فوراً سماعت کرتی ہے لیکن اتنے بڑے معاملے پر سماعت نہیں کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس حکومت میں اس کی امید کم ہے کہ اس بارے میں کوئی پیش رفت ہوگی۔
بعض مبصرین کے مطابق حکومت نے جن کشمیری لیڈروں کو نظربند کیا یا جیلوں میں ڈالا اب انھیں کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لیے مجبور ہوئی اور اسے انھیں سیاست دانوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے حکومت کی پسپائی نہیں بلکہ حکمت عملی سمجھنا چاہیے۔ دوسری طرف وہی کشمیری سیاست داں جن کی حکومت نے بری طرح تضحیک و تذلیل کی وزیر اعظم کی دعوت پر بھاگے چلے آئے۔ دراصل صورت حال یہ ہے کہ یہ دونوں کی مجبوری ہے۔ جہاں حکومت کو دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ وہ کشمیر میں سیاسی تعطل دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں کشمیری رہنماوں کو اپنے عوام کو جواب دینا ہے۔ لہٰذا یہ نہ تو کسی کی پسپائی ہے اور نہ ہی کسی کی جیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : آبادی ہے بہانہ، صرف مسلمان ہے نشانہ!... نواب علی اختر
لیکن سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ کیا حکومت نے جو ٹائم لائن بنائی ہے اس سے دل کی اور دلّی کی دوری دور ہوگی۔ غیر جانبدار تجزیہ کار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق دفعہ 370 کی منسوخی سے کشمیری عوام جذباتی طور پر ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کے دل زخم خوردہ ہیں۔ ان پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب پہلے اسٹیٹ ہڈ بحال کی جائے یعنی جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے بجائے ایک ریاست کا درجہ دیا جائے اور پھر انتخابات کرائے جائیں۔ کشمیر میں بحالی اعتماد کے اقدامات کیے جائیں۔ یہ تاثر ختم کیا جائے کہ اب کشمیر کے باہر کے لوگ بھی وہاں زمین خرید سکیں گے اور کشمیر میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جائے تاکہ بے روزگار نوجوانوں کو کام ملے اور انھیں ایک باعزت زندگی گزارنے کے مواقع ملیں۔ جب تک یہ سب نہیں ہوگا دل اور دلّی کی دوری دور نہیں ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔