کیا ہندوستان کو تبلیغ کا اخلاقی حق حاصل ہے؟... یوگیندر یادو
محمد یونس نے کہا تھا کہ ہندو اقلیتوں کے خلاف تشدد ہوا تو وہ عبوری حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے، ہمارے وزیر اعظم نے بلقیس بانو کو دلاسہ دیا؟ کسی لنچنگ کے شکار فرد کے گھر گئے؟
’بنگلہ دیشی ہندوؤں پر ہو رہے مظالم کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟‘ میری سوچ ظاہر ہو، اس سے پہلے ہی انکل جی نے تہمت بھی لگا دی کہ ’’آپ سیکولر لوگ ہندوستان کے بارے میں تو خوب منھ کھولتے ہیں لیکن کشمیری پنڈت یا پھر بنگلہ دیشی ہندو کے سوال پر آپ کے منھ میں دہی کیوں جم جاتی ہے۔‘‘ میں بولا ’’انکل ، میں تو اکثر بولتا ہوں، لیکن آپ پوچھ رہے ہیں تو پھر بول دیتا ہوں۔ لیکن اس سوال پر پورا اور تلخ سچ سننے کو تیار ہیں نہ آپ؟‘‘
بزرگ کی بے پروا حامی سن کر میں نے اپنی بات شروع کی ’’پہلا اور بنیادی سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے اقلیت، خصوصاً ہندو سماج ناانصافی اور ظلم کے شکار ہیں۔ بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمن کے 1975 میں قتل کے بعد سے بنگلہ دیش کا سیکولر آئین اکثریتی مسلم سماج کے دبدبہ کا شکار تھا جسے 1988 میں اسلامی جمہوریہ کے اعلان کے ذریعہ رسمی جامہ پہنا دیا گیا۔ بلاشبہ آئین میں اقلیتوں کے لیے مذہبی آزادی ہے، ان کے حقوق ہیں۔ وہاں ہندوؤں کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں جیسے پاکستان یا افغانستان میں۔ لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ ہندو دوئم درجہ کے شہری ہیں۔ حالانکہ وہاں کے ہندو انگریزوں کے زمانے میں زمیندار ہوا کرتے تھے، اس لیے آج بھی تعلیمی اور معاشی نظریہ سے پسماندہ نہیں ہیں، لیکن اپنے ملک میں تفریق کے سبب ہندوستان میں پناہ لینے کو مجبور رہے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد 1951 میں آج کے بنگلہ دیش (سابق میں پاکستان کا حصہ) میں یہ 22 فیصد ہندو تھے، لیکن یہ تعداد بنگلہ دیش بننے کے بعد 1974 میں گھٹ کر محض 13.5 فیصد اور 2011 کی مردم شماری میں محض 8 فیصد رہ گئی۔‘‘
میں نے پھر کہا کہ ’’تفریق ہی نہیں، ہندوؤں کے خلاف سیاسی اور مذہبی تشدد بھی ہو رہا ہے۔ گاؤں محلے میں روزانہ کے تشدد سے لے کر ہندو مخالف فسادات تک۔ جب جب عوامی لیگ کی حکومت ہوتی ہے، تب ہندو کچھ محفوظ محسوس کرتے ہیں، لیکن دوسری حکومتوں کے دوران عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ چونکہ شیخ حسینہ کی حکومت پر اقلیتوں کے تئیں رواداری کا الزام تھا، اس لیے ان کی حکومت کے خلاف عوامی غصہ کا شعلہ ہندوؤں پر بھی بھڑکا۔ مسلم سخت گیر تنظیموں نے سیاسی رنجش اور کچھ مذہبی عدم برداشت کی آگ میں گھی ڈالا اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ ہندو مندروں پر حملے ہوئے۔ اس معاملے میں اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ہر انصاف پسند انسان کو اس وقت بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘
انکل فوراً بولے ’’ہم بھی تو یہی کر رہے ہیں!‘‘ اس لیے فوری حمایت کے جذبہ سے بچتے ہوئے میں نے کہا ’’لیکن آپ جو کر رہے ہیں، اس کے بارے میں بھی کچھ تلخ حقائق سن لیجیے۔‘‘
میں نے اپنی بات آگے بڑھائی اور کہا کہ ’’دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ایشو پر ہندوستان میں جو دھرنا و مظاہرہ ہو رہا ہے، اس سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ جس طرح عرب ممالک ہندوستان کے مسلمانوں کی ہمدردی میں بیان دے کر رسم ادائیگی کرتے ہیں، وہی کام حکومت ہند اور ہندو مذہب کے ٹھیکیدار کر رہے ہیں۔ نہ عرب حکومتوں کو ہندوستانی مسلمانوں کے دکھ سکھ سے کچھ لینا دینا ہے، نہ ہمیں بنگلہ دیش کے ہندو سے۔ مطلب ہے تو ڈھکوسلے سے۔ سچ یہ ہے کہ ان کے لیے کچھ ٹھوس کرنے کی ہندوستان میں نہ تو سیاسی تمنا ہے، نہ ہی کوئی اہلیت۔ سچ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی گھریلو سیاست میں (یہ بات نیپال، سری لنکا اور مالدیپ پر بھی نافذ ہوتی ہے) ’ہندوستان کا دلال‘ ہونا سب سے بڑا الزام ہے۔ حکومت ہند کے ذریعہ کھلم کھلا عوامی لیگ کی حمایت کے سبب ہی حکومت ہند کے تئیں غصہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں سے بدلہ میں بدل جاتا ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہوئی کوئی بھی زیادتی بنگلہ دیش کے اقلیتوں کے لیے آفت بن جاتی ہے۔ اگر ہم بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے سچے ہمدرد ہیں تو نمائش کم کریں اور اپنی بولی میں صبر کا مظاہرہ کریں۔‘‘
انکل جی کی حالت نہ اگلتے، نہ نگلتے بنے والی تھی۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر میں نے آخری تلخ حقیقت بھی سامنے رکھ دی۔ سب سے تلخ اور شرمناک حقیقت تو یہ ہے انکل جی کی کم از کم اس معاملے میں بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کی کارگزاری ہندوستان کی موجودہ حکومت سے کہیں بہتر ہے۔ محمد یونس نے ہی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ملک کے نام یہی پیغام دیا تھا کہ اگر ہندو اقلیتوں کے خلاف تشدد ہوا تو وہ عبوری حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری منظور نہیں کریں گے۔ اس شرمناک تشدد پر پردہ ڈالنے کی جگہ پہلا موقع ملتے ہی انھوں نے خود مندر میں جا کر سبھی ہندوؤں کو سیکورٹی کا بھروسہ دلایا۔ ہمارے وزیر اعظم نے 20 سال میں بھی بلقیس بانو کو دلاسہ دیا؟ کسی لنچنگ کے شکار کے گھر جا کر دو لفظ ہمدردی کے کہے؟
ان کے چہرے کے ہاؤ بھاؤ کو پڑھ کر میں نے بات چیت کو سمیٹا، ’’انکل، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے پڑوس میں ظلم ہو اور ہم خاموش رہیں۔ بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ منھ کھولنے کی شروعات اپنے گھر سے کریں۔ سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں۔ رسم ادائیگی نہ کریں، جوکھم اٹھایئں۔ نواکھالی میں بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی حفاظت کے لیے گاندھی جی نے اپنی جان کی بازی لگائی تھی۔ اسی گاندھی نے کولکاتا کے فسادات کے درمیان کھڑے ہونے کی ہمت دکھائی تھی۔ سچ بولنا آسان اور سستا کام نہیں ہے۔‘‘
(یوگیندر یادو ’سوراج انڈیا‘ کے بانی اور معروف سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔