کیا آپ جانتے ہیں کہ بابا رام دیو کو ’کسی کا باپ‘ کیوں گرفتار نہیں کر سکتا؟
بابا رام دیو کا پتنجلی گروپ بڑا اشتہار دہندہ ہے۔ اسے حکومت کا تحفظ بھی حاصل ہے، اس لیے مین اسٹریم کا میڈیا اس کے خلاف کچھ چھاپنے-دکھانے سے پرہیز کرتا ہے۔
وہ ایسے کاروباری گروپ کے قائد ہیں جو ایک طرح سے سب کچھ فروخت کرتا ہے- صابن، تیل، بسکٹ، آٹا، تیل، گھی، ڈیٹرجینٹ، جینس، جڑی-بوٹی والی دوائیں اور گئوموتر تک۔ لیکن وہ ایسے ’ٹی وی پر نظر آنے والے چہرہ‘ ہیں جو یوگا سکھاتے ہیں اور سکھاتے سکھاتے ہی اپنی جڑی بوٹی والی دواؤں کی تشہیر کرنے لگتے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ ان کے پرانے گہرے رشتے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران انھوں نے کئی ریاستوں میں اپنے ’حامیوں‘ کے لیے بالواسطہ طور پر تشہیری عمل انجام دیا۔ ابھی مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی لیکن ناکام رہے بابل سپریو نے میڈیا کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ 2014 میں انھوں نے لوک سبھا الیکشن تبھی لڑا تھا جب بابا رام دیو نے ہوائی سفر کے دوران ان سے الیکشن میں ٹکٹ دلوانے کی بات کہی تھی۔ بابل اسی طاقت کی وجہ سے مرکزی وزیر مملکت بن پائے۔
یہ بھی پڑھیں : آکسیجن کی کمی کے لیے مودی حکومت ذمہ دار: پرینکا گاندھی
جب ایسی رسائی ہو، تب اس پر کیوں حیران ہونا چاہیے کہ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے ایسے امیونٹی بڑھانے والی ’کورونیل‘ کی لانچنگ میں حصہ لیا جس کی صحیح طریقے سے ٹیسٹنگ بھی نہیں ہوئی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ہریانہ کی بی جے پی حکومت اسے پتنجلی سے خرید کر تقسیم کر رہی ہے۔ یہ تب ہے جب کہ ویکسینوں کے لیے سرکاری فنڈ کم پڑ رہے ہیں لیکن پتنجلی کی مصنوعات کے لیے کہیں کمی نہیں ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ کئی ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں نے پتنجلی کے لیے زمین الاٹ کی ہے اور اس کے لیے شرحوں میں کافی رعایت دی گئی ہے۔ اس میں بابا یوگا تو سکھاتے ہی ہیں، اپنے کاروبار کے لیے کام بھی کرتے ہیں۔
بھلے ہی انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن (آئی ایم اے) کا مطالبہ ہو کہ اس یوگا گرو پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون کے تحت کارروائی ہو، سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ ایسو سی ایشن نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ’ویکسین کو لے کر غلط تشہیر کرنے‘ اور کووڈ کے علاج کے لیے بغیر ٹیسٹنگ اور غیر سائنسی علاجوں کو فروغ دینے پر رام دیو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ رام دیو پر مقدمہ چلانے کے لیے مناسب بنیاد ہے۔ پہلے کے ویڈیو بھی موجود ہیں جن میں ہنستے ہوئے انھیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’’آکسیجن کی کمی سے لوگ مرے جا رہے، بیڈ کم پڑ گئے، اسپتال کم پڑ گئے، شمشان کم پڑ گئے پھونکنے کے لیے جب کہ پوری کائنات میں ایشور نے آکسیجن بھر رکھی ہے۔ لے لو اسے باؤرے۔ جسم میں ناک کے دو سوراخ آکسیجن سلنڈر ہیں، جانگھ ڈاکٹر ہیں اور ہاتھ نرس ہیں۔‘‘
رام دیو پر غیر ذمہ دار ہونے اور غیر سائنسی بیان دینے کے الزام ایسے ہی نہیں لگ رہے ہیں۔ انھیں کووڈ آئی سی یو آنے اور سانس کے لیے نبرد آزما مریضوں کا علاج کرنے کے اپنے دعوے کو دکھانے کا چیلنج ڈاکٹروں نے دیا ہے۔ ڈاکٹروں نے یہ بھی کہا کہ جب پھیپھڑے کام کرنا بند کر دیتے ہیں تو مریض کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ یوگا اور ورزش کرنے کی۔
لیکن رام دیو کا ایک اور ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں وہ یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ ایلوپیتھی ’اسٹوپڈ سائنس‘ ہے۔ تیسرے ویڈیو میں وہ کسی واٹس ایپ پیغام کو پڑھتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ویکسین کی دونوں خوراک لینے کے بعد ہزاروں ڈاکٹروں کی موت ہو گئی ہے۔ وہ اس پر حیرانی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کیسے ڈاکٹر ہیں جو خود کا علاج بھی نہیں کر سکتے۔ ایک دیگر ویڈیو میں وہ ان لوگوں سے بات کرتے نظر آتے ہیں جن کے دوست، احباب، رشتہ دار کووڈ کی وجہ سے اسپتالوں میں جان گنوا بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے یہ لوگ غم میں ڈوبے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اچھے اسپتالوں، ڈاکٹروں اور دواؤں کے باوجود وہ لوگ اپنے لوگوں کی جان نہیں بچا پائے۔
آئی ایم اے نے وزیر اعظم کو لکھے خط میں بتایا ہے کہ پہلی لہر میں 753 ڈاکٹروں کو اپنی جان گنوانی پڑی اور ان میں سے کسی کو کوئی ویکسین نہیں لگی تھی۔ دوسری لہر میں بھی جن 513 ڈاکٹروں کی موت ہوئی ہے، ان میں سے بیشتر کو مختلف وجوہات سے ویکسین کی دونوں خوراک نہیں لگی تھی۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین لگائی گئی ہیں، ان میں سے .6 فیصد لوگ ہی اب تک متاثر ہوئے ہیں۔ آئی ایم اے کا کہنا ہے کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر رام دیو ویکسین، ڈاکٹروں اور جدید دواؤں کو لے کر اندیشہ پیدا کر رہے ہیں اور انھیں روکنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹروں نے یہ باتیں اٹھاتے ہوئے یہ اندیشے ٹھیک ہی ظاہر کیے ہیں کہ ماڈرن میڈیسین پر سوال اٹھا کر رام دیو نے ہیلتھ ورکروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کسی کی موت ہو جانے پر اس کے دوست، احباب، رشتہ دار ڈاکٹروں، عوامی طبی اہلکاروں، ویکسین دینے والوں پر حملے بھی کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا بھی مناسب ہی ہے کہ جب لاک ڈاؤن میں سبھی طرح کے پروگراموں پر روک ہے، تب رام دیو کو یوگا کیمپ لگانے کی اجازت کس بنیاد پر دی گئی ہے۔
یہ سب باتیں ایسی ہیں جو رام دیو کے خلاف کارروائی کے لیے مناسب بنیاد ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کی باتیں دوسرے لوگ اگر کرتے ہیں تو ان پر کارروائی بھی ہو رہی ہے۔ لیکن رام دیو پر ایسا کچھ ہونے کا امکان اب تک تو نظر نہیں آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : آکسیجن کی کمی کے لیے مودی حکومت ذمہ دار: پرینکا گاندھی
میڈیا میں رام دیو کے خلاف بہت کچھ نہ چھپنے-دکھانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پتنجلی گروپ بڑا اشتہار دہندہ ہے۔ اسے حکومت کا تحفظ بھی حاصل ہے، اس لیے مین اسٹریم کا میڈیا اس کے خلاف کچھ چھاپنے یا دکھانے سے پرہیز کرتا ہے۔
رام دیو پر کوئی شور و غل یا کارروائی نہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔