’پھر سے اپنانا ہوگا جمہوری نیشنلزم‘... پروشوتم اگروال

نیا سال شروع ہو چکا ہے، لیکن گزشتہ سالوں میں ملک کو ایک دھاگے میں پروئے رکھنے والا ’آئیڈیا آف انڈیا‘ معدوم ہو گیا، اس آئیڈیا کے تئیں پروشوتم اگروال کیا سوچتے ہیں ذیل میں مطالعہ کیجیے۔

<div class="paragraphs"><p>کانگریس اور بی جے پی کا پرچم، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

کانگریس اور بی جے پی کا پرچم، تصویر سوشل میڈیا

user

پرشوتم اگروال

2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک مشترکہ و جمہوری ملک کی شکل میں ہندوستان کا نظریہ داؤ پر ہے۔ حال کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے بی جے پی آگے بڑھنے کی امید کر رہی ہے اور ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح اس کے امکانات کو مزید بڑھائے گا۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس آر ایس ایس کے لیے وقف کیڈر اور مین اسٹریم میڈیا، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کی کھلی حمایت بھی ہے۔

حالانکہ بی جے پی کی قسمت کو پروان چڑھانے والا سب سے اہم سبب ہے پارٹی کا خود کو اور وزیر اعظم مودی کو باوقار اور مضبوط ہندوستان کے خواب کے تئیں وقف دکھانے کی اس کی صلاحیت۔ اس کے ساتھ ہی پورے اپوزیشن، خاص طور سے کانگریس کو اس خواب کے دشمن عناصر کی شکل میں پیش کرنا۔ آر ایس ایس/بی جے پی شہریوں کے ایک بڑے طبقہ کو یہ سمجھانے میں بھی کامیاب رہے ہیں کہ ان کی پالیسی پر مبنی ناکامیوں اور خراب حکمرانی کے سبب ہونے والی تکلیف ملک کے وقار کے لیے ضروری ’قربانی‘ ہے۔ مثال کے لیے اس پر غور کریں کہ کس طرح مودی حکومت تباہناک نوٹ بندی اور کووڈ-19 وبا سے نمٹنے میں اپنی ناکامی سے بچ نکلی۔


اسی طرح کافی اچھا اور عوامی مفاد والی حکومت فراہم کرنے کے باوجود کانگریس راجستھان میں ہار گئی۔ اسے ایک ووٹر کے رد عمل سے سمجھیے۔ اس نے ایک صحافی سے کہا ’’ہاں، اشوک گہلوت نے بہت اچھا کام کیا ہے، لیکن مودی واقعی میں ہندوستان کو عظیم بنا رہے ہیں۔‘‘

بے شک یہ غلط سوچ مستقل تشہیر کا نتیجہ ہے، لیکن کوئی اس کا اثردار ڈھنگ سے مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ یہ نیشنلسٹ جوش پر پھر سے دعویٰ کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ماضی کے ساتھ جذباتی جڑاؤ اور مستقبل کے تئیں فکر سبھی سماج میں اہم کردار نبھاتا ہے۔ حب الوطنی کے جذبہ کو رجعت پسند، سخت گیر، انتہائی نیشنلسٹ طریقے سے ظاہر کیا جا سکتا ہے، جیسے بی جے پی-آر ایس ایس کر رہے ہیں یا جمہوری مشترکہ نیشنلزم کو ظاہر کیا جا سکتا ہے جیسے گزشتہ وقت کی کانگریس نے کیا۔ نیشنلزم کے مسئلہ پر تمام اکیڈمک مباحث کی جا سکتی ہیں لیکن روز مرہ کی سیاست میں نیشنلزم کی طاقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔


بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے ضروری سبق نہیں سیکھا ہے۔ ہندوستان ایک ملک کی لغت والی تعریف کو پورا کرتا ہے یا نہیں، یہ ایک دلچسپ تعلیمی سوال ہو سکتا ہے، لیکن اب ایک قومی پارٹی کا لیڈر لوک سبھا میں اعلان کرتا ہے کہ ’ہندوستان ایک ملک نہیں ہے‘، تو یہ صرف ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو ایک مشترکہ ملک کی شکل میں ہندوستان کے نظریہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

کرونی کیپٹلزم ہو یا بے روزگاری یا پھر ذات پر مبنی مردم شماری، یہ سبھی اہم ایشوز ہیں اور ان میں لوگوں کو متحد کرنے کا امکان ہے، لیکن ان ایشوز کو اٹھانے پر بھی اب تک امید کے مطابق نتائج نہیں ملے ہیں۔ وجہ صاف ہے، کوئی بھی ایشو، چاہے وہ کتنا بھی اہم کیوں نہ ہو، تب تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا جب تک کہ اسے ایک مجموعی نریٹیو میں نہ پرویا جائے۔ 2019 میں رافیل ایشو کو اٹھانا اسی وجہ سے ناکام رہا۔


’انڈیا‘ خیمہ کی مختلف پارٹیوں کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ وہ اپنے بڑبولے لیڈروں پر لگام لگائیں۔ مذاہب کی سماجی برائیوں کو خطاب کیا جانا چاہیے، لیکن حال ہی میں ڈی ایم کے لیڈر نے ہندو مذہب کے تعلق سے جس طرح کی زبان کا استعمال کیا، وہ تکبر بھرا اور منفی ہے۔ اسی طرح یہ مطالبہ کرنا کہ تلسی کے ’رام چرت مانس‘ کے کچھ حصوں کو ہٹا دیا جانا چاہیے، جتنا آپ چبا سکتے ہیں، اس سے بڑا نوالہ لے لینے جیسا ہے۔ ہمارے بیشتر لیڈران اس ثقافتی بحث میں گھسنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مطالبہ کر کے کہ آبادی کے بڑے حصے کے ذریعہ ’پاکیزہ‘ مانی جانے والی کتابوں کو سنسر کیا جائے، آپ صرف اس حریف کو ہتھیار دے رہے ہیں جو لوگوں کا پولرائزیشن کرنے پر منحصر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔