ہندوستان پر تاناشاہی قبضے کی کوششوں نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا، اسے بچانا ہی ہوگا
آزاد دنیا کو اس بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ’ہندوستانی جمہوریت ایک عالمگیر عوامی شئے‘ ہے، اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
شملہ سے اوپر اپنے گاؤں میں جب بھی بارش ہوتی ہے، مجھے قدرتی آرکیسٹرا کا لطف اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ میرے گھر کے چاروں طرف لاتعداد جھینگروں نے بسیرا بنا رکھا ہے اور وہ ساز چھیڑ دیتے ہیں۔ ان کی موسیقی میں کمال کا توازن ہوتا ہے۔ پہلے قائد جھینگر تیز آواز نکالتا ہے، اس کے پیچھے پیچھے کچھ دیگر جھینگر ویسی ہی آواز نکالتے ہیں، پھر اس میں کچھ مزید شامل ہو جاتے ہیں، اور پھر ہزاروں جھینگر ایک آواز میں ’بھنبھناہٹ‘ کی آواز نکالنے لگتے ہیں۔ آس پاس سے نکلنے والی تمام دوسری آوازوں پر جھینگر کی یہ اجتماعی آواز حاوی ہو جاتی ہے۔
لیکن کمال کی بات ہے۔ ان دنوں میں ایسی ہی آواز کو دہلی میں پارلیمنٹ سے نکلتا سن رہا ہوں۔ یہاں اشوک استمبھ (ستون) کے جارحانہ شیروں کو بھی برسراقتدار طبقہ کے اراکین کی جھینگر جیسی ساز چھیڑنے کی وجہ سے حاشیے پر چلے جانا پڑا ہے۔ جب بھی راہل گاندھی کچھ کہتے ہیں تو وہ غصے میں ایک آواز سے ساز چھیڑ دیتے ہیں۔ اس میں قائد سنگر اسمرتی ایرانی یا پیوش گویل میں سے کوئی بن جاتا ہے۔
کب کون قائد بنے گا، یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ اس وقت کس پر بڑا ’بھوت‘ سوار ہے۔ ان میں سے کوئی اس قائد جھینگر کی طرح ’معافی مانگو، معافی مانگو، معافی مانگو‘ کا ساز چھیڑتا ہے اور پھر اس کے پیچھے کورس میں اسی آواز کی بھنبھناہٹ گونجنے لگتی ہے۔ اس تیز آواز میں تمام دوسری آوازیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ ہے راہل گاندھی کا ملک کی جمہوری حالت پر حال ہی میں لندن میں دیا گیا بیان۔
جب بی جے پی کا آرکیسٹرا رکے گا اور اس پر غور کیا جائے گا کہ راہل گاندھی نے لندن میں کیا کہا، تب انھیں احساس ہوگا کہ طویل مدت میں کسی بھی ہندوستانی لیڈر نے ٹیلی پرامپٹر کے ساتھ یا اس کے بغیر اتنی سمجھدار باتیں کبھی نہیں کیں۔ اس دلیل کے باوجود کہ میں حکومت میں 35 سال کی خدمت کے بعد تقریباً ’برین-ڈیڈ‘ ہو گیا ہوں۔ اس کے بعد بھی جب میں نے لندن میں راہل کی باتیں سنیں تو ان کے نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ لندن میں ایک تقریر میں راہل گاندھی نے خاص طور پر جو ایک رائے دی، بیشتر مبصرین نے اس کا مطلب ہی نہیں سمجھا۔
نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان میں جمہوریت کے لگاتار زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ ’ہندوستانی جمہوریت ایک عالمگیر عوامی شئے ہے‘ اور دنیا کے مفاد میں اسے بچایا جانا چاہیے۔ میں نے طویل مدت سے اس سے زیادہ سمجھدار اور معنی خیز بات نہیں سنی، کیونکہ یہ ہمارے ملک کی حالت اور اس کی باوقار جمہوری تاریخ کو ایک ایسے ضمن میں رکھتی ہے جہاں مغربی طاقتوں کے ذریعہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی کیا جانا چاہیے۔
اس جملہ کے معنی پر غور کریں، اس میں استعمال ہوئے لفظ پر غور کریں۔ ایک ’عوامی شئے‘ وہ شئے یا سروس ہے جو ضروری اور سبھی کے مفاد میں، دونوں ہے۔ اس میں نہ کوئی مقابلہ آرائی ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو محروم رکھنا ہے اور اسے مہیا کرانا اسٹیٹ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
’عوامی شئے‘ ایک معاشی نظریہ ہے اور اسے سیاسی ضمن میں رکھ کر راہل گاندھی نے اسے ایک نیا زاویہ دیا ہے اور دنیا کے لیڈروں کو سوچنے کے لیے کچھ دیا ہے۔ راہل انھیں اپنے کھانچے سے باہر آ کر اس بات پر غور کرنے کو مجبور کر رہے ہیں کہ ’مکمل‘ درحقیقت کئی حصوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور مختلف حصوں کے بغیر ’مکمل‘ کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر ہندوستان کے ضمن میں تو اسے نظر انداز کرنا اور بھی مشکل ہے۔
آخر ہندوستان اس دنیا کے مجموعی خطہ ارض کے 3 فیصد حصہ پر واقع ہے، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہاں دنیا کی آبادی کے 17.5 فیصد لوگ رہتے ہیں۔ یہ پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے، یہ 9 نیوکلیائی طاقتوں میں سے ایک ہے، اس کے پاس (چین کو چھوڑ کر) دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے اور یہ فوج ہارڈویئر کا تیسرا سب سے بڑا امپورٹر ہے۔
اس لیے یہ بات بالکل صاف ہونی چاہیے کہ اتنے اہم اسٹیک ہولڈر کی ’صحت‘ کا اثر پوری عالمی معیشت کی صحت پر پڑنا لازمی ہے اور یہ بھی کہ دوسرے ملک اس طرف سے آنکھیں نہیں موند سکتے ہیں، یا شاید وہ اپنے جوکھم پر اِدھر سے آنکھیں پھیر بھی سکتے ہیں۔ ’ورڈل فورم آن ڈیموکریسیز‘ کے مطابق دنیا کی 58 فیصد آبادی لبرل/انتخابی جمہوریتوں میں رہتی ہے، اور اگر ہندوستان اس گروپ سے باہر ہو جاتا ہے (جس راہ پر یہ پہلے ہی بڑھ چلا ہے) تو یہ نمبر گر کر 41 فیصد رہ جائے گا۔ آزاد دنیا کے لیے یہ بڑی ہی بھیانک خبر ہوگی، جہاں جمہوریت پہلے سے ہی حاشیے پر کھسک رہی ہے۔
فریڈم ہاؤس کی 2022 کی رپورٹ میں ہندوستان کی حالت میں گراوٹ آئی ہے اور اسے ’جزوی طور سے آزاد جمہوریت‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور اس طرح اب دنیا کی صرف 20 فیصد آبادی ’آزاد‘ جمہوریت میں رہتی ہے۔ 2021 لگاتار 15واں سال رہا جب دنیا میں جمہوریت کا دائرہ سمٹا ہے اور 73 ملک اس پیمانہ پر پھسلے ہیں۔
ہمیں ہندوستان کے بارے میں یہ سب بتانے کے لیے حقیقت میں سویڈن اور امریکہ کے کسی ادارہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں رہنے والا کوئی بھی صحیح طرح سے سوچنے سمجھنے والا شخص بڑی آسانی سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہم ان 54 ممالک کے بے وقار کلب میں شامل ہونے کی راہ پر ہیں جو ’آزاد نہیں‘ کہے جاتے ہیں۔ ایسے تمام انڈیکس ہیں جو چیخ چیخ کر یہ بات کہہ رہے ہیں... پریس فریڈم انڈیکس، ہیومن فریڈم انڈیکس، ڈیموکریسی انڈیکس، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس، ہنگر انڈیکس، اِن ایکویلٹی انڈیکس، انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن انڈیکس...۔
قانونی حکمرانی کا زوال، اداروں کو کمزور کرنا، عدلیہ پر روزمرہ کے حملے، پولیس کا غلط استعمال، اقلیتوں پر مظالم، لبرل اور سماجی کارکنان پر حملے، منتخب ریاستی حکومتوں کو دبا کر رکھنا، پارلیمنٹ کی بے عزتی... یہ سبھی ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کے منہدم ہونے کی طرف واضح اشارے ہیں۔ اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو ہمارے 75 سال پرانے جمہوری ڈھانچے کو ہمیشہ کے لیے گرانے کے لیے شاید صرف ایک اور عام انتخاب کی ضرورت ہے۔
راہل گاندھی نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کے ذمہ دار اور آزادی کے حامی عناصر کو ہندوستان پر ہو رہے تاناشاہی قبضے کو موقع پرست خاموش تماشائی کی طرح چپ چاپ نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمارا ملک آزادی کے بعد سے دنیا میں آزادی کی ایک مثال رہا ہے، نوآبادیات مخالف، غیر وابستہ تحریک کے لیڈر اور سرد جنگ کو ختم کرنے کی اپنی ایماندار کوششوں کی وجہ سے اس کی شبیہ ہر شکل میں آزادی کو فروغ دینے والے ملک کی رہی۔
اگر ہندوستان آزاد نہیں رہ جاتا ہے تو پورا ایشیا ’آزاد دنیا‘ کے لیے گم ہو جائے گا، چین کو توازن میں رکھنے کا سبب ختم ہو جائے گا، چھوٹے ایشیائی جمہوری ممالک کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا، اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان، چین اور پاکستان کے درمیان نیوکلیائی جنگ شروع ہونے اور یہاں قتل عام کے نئے دور کے شروع ہو جانے کا اندیشہ بھی بن جائے گا۔ اس کا اثر دنیا پر کیا ہوگا؟ نہ صرف یہاں انصاف پسندی کا جذبہ کم ہو جائے گا بلکہ یہ ایک خطرناک جگہ ہو جائے گی۔ مغرب/ترقی یافتہ دنیا میں بھی جمہوریت کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
ہندوستانی جمہوریت واقعی میں ایک ’قابل قدر عالمی عوامی شئے‘ ہے، اور آزاد دنیا کے لیڈروں کو یہ یقینی کرنا چاہیے کہ یہاں جو کچھ بھی جمہوریت بچی ہوئی ہے، اس پر کوئی قبضہ نہ کر لے۔ شیکسپئر نے کہا تھا: اسلحہ اور قانون ایک ساتھ پھلتے پھولتے نہیں ہیں۔
(مضمون نگار ابھے شکلا ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔