تاخیر ہی سے صحیح کام خود بولتا ہے، منریگا اس کی زندہ مثال... سونیا گاندھی
مودی حکومت منریگا کی اہمیت و افادیت سمجھ چکی ہے، حکومت سے درخواست ہے کہ یہ وقت ملک پر چھائے بحران کا سامنا کرنے کا ہے، نہ کہ سیاست کرنے کا۔ یہ وقت بی جے پی بنام کانگریس کا نہیں۔
مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ، 2005 (منریگا) ایک انقلابی اور ظاہری تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ یہ انقلابی تبدیلی کا نمونہ اس لیے ہے کیونکہ اس قانون نے غریب شخص کے ہاتھوں کو کام اور مالی طاقت دے کر بھوک و غریبی پر حملہ کیا۔ یہ ظاہری مثال ہے کیونکہ یہ پیسہ سیدھے ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچاتا ہے جنھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مخالف نظریہ والی مرکزی حکومت کے چھ سال میں اور اس سے پہلے بھی لگاتار منریگا کی اہمیت ثابت ہوئی ہے۔ مودی حکومت نے اس کی تنقید کی، اسے کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن آخر میں منریگا کے فائدے و اہمیت کا اعتراف کرنا پڑا۔ کانگریس حکومت کے ذریعہ قائم کردہ عوامی نظام تقسیم (پی ڈی ایس) کے ساتھ ساتھ منریگا سب سے غریب و کمزور شہریوں کو بھوک اور غریبی سے بچانے کے لیے انتہائی کارگر ہے۔ خاص طور سے کورونا وبا کے بحران کے دور میں یہ مزید اہمیت کا حامل ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک کی پارلیمنٹ کے ذریعہ ستمبر 2005 میں پاس منریگا قانون ایک طویل عوامی تحریک اور سول سوسائٹی کے ذریعہ اٹھائے جا رہے مطالبات کا نتیجہ ہے۔ کانگریس پارٹی نے عوام کی اس آواز کو سنا اور عملی جامہ پہنایا۔ یہ ہمارے 2004 کے انتخابی منشور کا حصہ یعنی حلف بنا اور ہم میں سے اس منصوبہ کو عمل درآمد کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے والے ہر شخص کو فخر ہے کہ یو پی اے حکومت نے اسے نافذ کر کے دکھایا۔
اس کا آسان اصول ہے: ہندوستان کے گاؤں میں رہنے والے کسی بھی شہری کو اب کام مانگنے کا قانونی اختیار ہے اور حکومت کے ذریعہ اسے کم از کم مزدوری کے ساتھ کم از کم 100 دنوں تک کام دیے جانے کی گارنٹی ہوگی۔ اس کی اہمیت بہت جلد ثابت بھی ہوئی۔ یہ بنیادی سطح پر طلب کے مطابق کام کا حق دینے والا پروگرام ہے، جو اپنے اسکیل اور بناوٹ میں بے مثال ہے اور اس کا مقصد غریبی مٹانا ہے۔ منریگا کی شروعات کے بعد 15 سالوں میں اس منصوبہ نے لاکھوں لوگوں کو بھوک و غریبی کے دلدل سے باہر نکالا ہے۔
مہاتما گاندھی نے کہا تھا "جب تنقید کسی تحریک کو دبانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اس تحریک کو قبولیت اور عزت ملنی شروع ہو جاتی ہے۔" آزاد ہندوستان میں مہاتما گاندھی کی اس بات کو ثابت کرنے کے لئےمنریگا سے زیادہ اچھی مثال دوسری کوئی نہیں ہے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی سمجھ آیا کہ منریگا کو بند کیا جانا پریکٹیکل نہیں۔ اسی لیے انھوں نے قابل اعتراض زبان کا استعمال کر کانگریس پارٹی پر حملہ بولا اور اس منصوبہ کو 'کانگریس پارٹی کی ناکامی کا ایک زندہ یاد گار مجسمہ' تک کہہ ڈالا۔ گزشتہ سالوں میں مودی حکومت نے منریگا کو ختم کرنے، کھوکھلا کرنے اور کمزور کرنے کی پوری کوشش کی۔ لیکن منریگا کے بیدار سپاہیوں، عدالت اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں کے زبردست دباؤ کے سبب حکومت کو پیچھے ہٹنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے منریگا کو 'سوچھ بھارت' اور 'پی ایم آواس یوجنا' جیسے پروگراموں سے جوڑ کر اس کی شکل بدلنے کی کوشش کی، جسے انھوں نے اصلاح کہا۔ لیکن حقیقت میں یہ کانگریس پارٹی کے منصوبوں کا نام بدلنے کی محض ایک کوشش تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ منریگا مزدوروں کو ادائیگی کیے جانے میں کافی تاخیر کی گئی اور انھیں کام تک دیے جانے سے انکار کر دیا گیا۔
کووڈ-19 وبا اور اس سے پیدا معاشی بحران نے مودی حکومت کو حقیقت کا احساس کروایا ہے۔ پہلے سے ہی چل رہے غیر معمولی معاشی مسائل اور بحران برداشت کر رہی معیشت نے حکومت کو احساس دلایا کہ گزشتہ یو پی اے حکومت کے فلیگ شپ دیہی راحت پروگراموں کو دوبارہ شروع کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں بچا ہے۔ کام خود بولتا ہے۔ تاخیر سے ہی صحیح، وزیر مالیات کے ذریعہ حال میں ہی منریگا کا بجٹ بڑھا کر ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کیے جانے کے اعلان نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے۔ صرف مئی 2020 میں ہی 2.19 کروڑ خاندانوں نے اس قانون کے تحت کام کا مطالبہ کیا جو آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
کانگریس پارٹی کے پروگراموں کو اسی شکل میں قبول کرنے کے لیے مجبور مودی حکومت اب بھی خامیاں تلاش کرنے کے لیے عجیب و غریب دلائل کا جال بچھانے کی تیاری میں لگی ہے۔ لیکن پورا ملک جانتا ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی عوامی تحریک نے کس طرح نہ صرف لاکھوں ہندوستانیوں کو غریبی کے دلدل سے باہر نکالا، حتیٰ کہ پنچایتی راج اداروں کی شکل بدل دی، ماحولیاتی تبدیلی کا اثر کم کرنے میں مدد کی اور دیہی معیشت کو از سر نو زندہ کیا۔ اس نے سبھی کے لیے یکساں تنخواہ یقینی بنا کر خواتین، دلتوں، قبائلیوں اور کمزور طبقات کو مضبوط بنا کر ایک نئی سماجی تبدیلی کی شروعات کی۔ اس نے انھیں منظم ہونے کی طاقت دی اور انھیں عزت و وقار کی زندگی عطا کی۔ آج کے بحران میں ہندوستان کو مضبوط بنانے کے لیے ان باتوں کو جاننا بہت ضروری ہے۔
آج مایوس مزدور اور محنت کش مختلف شہروں سے گروپوں میں اپنے گاؤں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی ایک محفوظ مستقبل۔ جب غیر معمولی بحران کے بادل منڈلا رہے ہیں، تو منریگا کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ان محنت کشوں کا اعتماد از سر نو قائم کرنے کے لیے راحت کام ان پر مرکوز ہونے چاہئیں۔ سب سے پہلا کام انھیں منریگا کا جاب کارڈ جاری کیا جانا ہے۔ راجیو گاندھی نے اپنی خاص کوششوں کے ذریعہ جس پنچایت راج نظام کو مضبوط بنانے کی جدوجہد کی، آج منریگا کو نافذ کرنے کی اہم ذمہ داری انہی پنچایتوں کو دی جانی چاہیے، کیونکہ یہ کوئی سنٹرلائز پروگرام نہیں ہے۔ عوامی فلاح کے منصوبے چلانے کے لیے پنچایتوں کو مزید مضبوط کیا جائے اور ترجیحی بنیاد پر پیسہ پنچایتوں کو دیا جائے۔ گرام سبھا متعین کرے کہ کس طرح کا کام کیا جائے۔ کیونکہ مقامی منتخب نمائندہ ہی زمینی حقیقت، مزدوروں کی حالت اور ان کی ضرورتوں کو بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گاؤں اور علاقائی معیشت کی ضرورتوں کے مطابق اپنے بجٹ کو کہاں خرچ کرنا ہے۔ مزدوروں کے ہنر کا استعمال ایسے پائیدار ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے کیا جانا چاہیے جن سے زراعتی پیداوار میں سدھار ہو، دیہی آمدنی میں اضافہ ہو اور ماحولیات کا تحفظ ہو۔
بحران کے اس وقت مرکزی حکومت کو پیسہ سیدھا لوگوں کےہاتھوں میں پہنچانا چاہیے اور سب طرح کی بقایہ رقم، بے روزگاری بھتہ اور مزدوروں کی ادائیگی لچیلے طریقے سے بغیر تاخیر کے کرنا چاہیے۔ مودی حکومت نے منریگا کے تحت کام کے دنوں کی تعداد بڑھا کر 200 کرنے اور کام کی جگہ پر ہی رجسٹریشن کرانے کی اجازت دینے کے مطالبات کو نظرانداز کر دیا ہے۔ منریگا کے تحت اوپن-انڈیڈ فنڈنگ یقینی ہونی چاہیے، جیسا کہ پہلے ہوتا تھا۔
منریگا کی اہمیت بار بار ثابت ہوئی ہے کیونکہ یو پی اے حکومت کے دوران اس میں لگاتار اصلاح و اضافہ ہوا۔ وسیع سوشل آڈٹ، شفافیت، صحافیوں و دانشوروں کے ذریعہ جائزہ اور لوک پال کی تقرری کے ذریعہ سے حکومت و شہریوں نے مل کر اسے موجودہ شکل دی۔ ریاستی حکومتوں نے بہترین طریقے اختیار کر کے اس میں اہم کردار نبھایا۔ یہ پوری دنیا میں انسداد غریبی کے ایک ماڈل کی شکل میں مشہور ہو گیا۔
بے دلی سے ہی صحیح، مودی حکومت اس منصوبہ کی اہمیت سمجھ چکی ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ یہ وقت ملک پر چھائے بحران کا سامنا کرنے کا ہے، نہ کہ سیاست کرنے کا۔ یہ وقت بی جے پی بنام کانگریس کا نہیں۔ آپ کے پاس ایک طاقتور نظام ہے، برائے کرم اس کا استعمال کر آفت کے اس دور میں ہندوستانی شہریوں کی مدد کیجیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Jun 2020, 9:00 AM