حجاب پر تلاطم، جہالت یا تعصب!
سابقہ تجربات اس بات کا اشارہ کر رہے ہیں کہ عنقریب کوئی ایسا فرمان جاری ہونے والا ہے جس پر ایک بار پھر فرقہ پرست بلیاں اچھل کر اقلیتوں کو چڑھائیں گے۔
ہندوستانی آئین کے دیباچے میں لفظ ’سیکولر‘ ہے اور آرٹیکل 25 سے 28 میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی مذہب کے پیشے میں امتیازی سلوک، سرپرستی یا مداخلت نہیں کرے گی۔ آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ تمام ہندوستانی امیر، غریب، مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی ہر قوم و مذہب کے ماننے والے ضمیر کی آزادی، امن عامہ، اخلاقیات اور صحت کے ساتھ مشروط آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے برابر کے حقدار ہیں اور آرٹیکل 26 میں ہندوستانی آئین نے ہمیں یہ حق دیا ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کے معاملات خود سنبھال سکتا ہے۔
جب آئین ہند نے ہمیں یہ حق دیا ہے تو کسی بھی سیاسی اور انتہا پسند گروہ کے لیے یہ رواں نہیں کہ وہ کسی بھی ہندوستانی کو اپنے بنیادی حق پر عمل کرنے سے روکے مگر گزشتہ سال کے آخری دن کرناٹک کے ایک اسکول میں مسلم طالبات کو داخل ہونے سے محض اس لیے روک دیا گیا کہ وہ حجاب میں تھیں، حالانکہ ایسا نہیں تھا کو وہ پہلی بار حجاب کرکے آئی تھیں بلکہ وہ طالبات ہمیشہ سے حجاب کرکے انتہائی مہذب انداز میں یونیورسٹی آتی تھیں مگر اس دن انہیں عین امتحان سے قبل اچانک اسکول میں داخلے نہیں ہونے دیا گیا جس سے واضح ہے کہ یہ حجاب کے خلاف گہری اور منظم سازش تھی۔
نام نہاد دیش بھگتوں کی جانب سے ’حیا‘ پر بے حیائی کو روکنے کی بجائے انتظامیہ نے بھی آئین ہند کی خلاف ورزی کرنے والوں کا بھرپور ساتھ دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستان میں مختلف مذہب و ملت کے ماننے والے لوگ عرصہ دراز سے اپنے اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں اور یہ اس ملک کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی کوئی بھی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا قاصر ہے مگر چند سیاسی لوگوں کی گندی سیاست کی وجہ سے وطن عزیز کا حال نا قابل گفت و شنید ہے اور اب ملک میں نفرت کی ایسی ہوا چلی ہے جو تعلیم گاہوں تک پہنچ چکی ہے۔
حجاب کے حو الے سے کھڑا کیا گیا تنازعہ ہندوستان کے مستقبل کے لیے خوش آئند نہیں ہے کیونکہ ملک کی تقریباً ہر ریاست کا اپنا ایک الگ کلچر ہے جس پر وہ عمل پیرا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ میں کوئی ٹوپی اور کرتا پہن کر جاتا ہے تو کوئی دھوتی اور کوئی بھگوا لباس پہن کر غرضکہ سب اپنی اپنی ریاست، مذہب اور قوم کی تہذیب کے مطابق لباس زیب تن کر کے آتے ہیں اور ان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تو پھر اسکول، کالج یا یونیورسٹیوں میں معصوم طالبات کو حجاب کے استعمال سے روک دینا حیرت انگیز اور قابل افسوس ہے۔ اس معاملے پرتقریباً ہر طرف اختلاف پایا جا رہا ہے۔
یہی اختلاف اب ملک کی سپریم کورٹ میں بھی دیکھنے کو ملا ہے جہاں پر حجاب جیسے حساس معاملے پر کئی روز کی میراتھن سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بنچ نے اپنا علیحدہ علیحدہ فیصلہ سنایا ہے۔ بنچ میں شامل جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ اور ریاستی حکومت کے حکم امتناع کو برقرار رکھا ہے جبکہ جسٹس سودھانشو دھولیہ نے حجاب پر امتناع کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے منقسم فیصلے سے حالانکہ کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی تاہم اس فیصلے میں جسٹس دھولیہ کے تاثرات اور ان کے تبصرے انتہائی اہمیت کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔
جسٹس دھولیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ میرے خیال میں ملک کے دستور میں اقلیتوں کو جو یقین دہانی کرائی گئی ہے اس پر ملک کی اقلیتیں ملک کی اکثریت پر بھروسہ کرتی ہیں۔ جسٹس دھولیہ نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں ڈسیپلن ہو تاہم ڈسیپلن تعلیم کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ اس حقیت کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا لڑکوں کے تعلیم حاصل کرنے سے مشکل ہوتا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں لڑکیوں کو تعلیم کی بجائے گھر کے کام کاج میں زیادہ جھونکا جاتا ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ انتہا پسندوں کی ذہنی پراگندگی پر حقوق انسانی کے نام نہاد ٹھیکیدار بھی خاموش ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی دن رات وکالت کرنے والے لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ حجاب کا استعمال سماج میں برائیوں کی روک تھام میں معاون ہوتا ہے، اس کے باوجود اس پر اعتراضات کرنا ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے جبکہ حجاب لڑکیوں کی اپنی مرضی کا مسئلہ ہے۔ حجاب سے لڑکیوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان میں طمانیت پیدا ہوتی ہے تو اس پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں اور اسے ایک مذہب سے جوڑنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔
حالات و واقعات سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حجاب کے نام پرشروع کیا گیا ہنگامہ دراصل آئین ہند کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایک گہری اور منظم سازش بھی ہے۔ اس کے پس پشت ایک انتہائی گھٹیا سوچ کار فرما ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو کسی بھی مسلمان مخالف ممکنہ فرمان سے پہلے اقلیتوں کو دیوار سے لگا کر اکثریت کو متحد کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ یہ تنازعہ صرف حجاب تک محدود نہیں ہے، سابقہ تجربات اس بات کا اشارہ کر رہے ہیں کہ عنقریب کوئی ایسا فرمان جاری ہونے والا ہے جس پر ایک بار پھر فرقہ پرست بلیوں اچھل کراقلیتوں کو چڑھانے کا کام کریں گے۔
ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک کو جہاں مختلف مذہب و ملت کے ماننے والے لوگ عرصہ دراز سے اپنے اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں جس پر پوری دنیا کو رشک اور حیرت ہے، اسے عالمی سطح پر شرمسار ہونے کا سامان تیار کیا جائے۔ موجودہ سیاست ہمارے ملک کو کہاں لے جائے گی، آج کے حالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ان تمام محبان وطن اور حقوق انسانی کے حقیقی علمبرداروں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ملک دشمن طاقتوں کو ان کے مقاصد میں ناکام کریں تاکہ ملک اور شہریوں کھ وقار برقرار ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔