ہر ایشو کو مذہب سے جوڑو، پولرائزیشن کرو، یہ بی جے پی کا دھیان بھٹکانے کا پرانا طریقہ... رام پنیانی کا مضمون
بی جے پی اپنے حامی اداروں کے بڑے نیٹورک اور حکومت کے آگے سر بہ سجود میڈیا کے ذریعہ اس ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے جس میں لوگوں کے مسائل کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ہندوستان کی ثقافت اور مذہبی وراثت کی خوشحالی اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ کئی شعرا اور مصنفین نے بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے الگ الگ حصوں سے مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے لوگوں کے کارواں اس خطہ ارض پر پہنچے اور انھوں نے مل جل کر ہندوستان کی شکل میں کثیر رنگی پھولوں کے گلدستے کی بنیاد ڈالی۔ لوگوں کے ایک ساتھ جڑنے کے اس عمل کا نقطہ عروج تھا جنگ آزادی، جب مختلف مذاہب، ذاتوں اور الگ الگ زبان بولنے والوں نے کندھے سے کندھا ملا کر ہندوستان کو غیر ملکی حکومت سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کیا۔ جس دوران ملک میں یکسر محبت اور خیر سگالی بڑھ رہی تھی، اسی وقت کچھ ایسی طاقتیں بھی ابھریں جن کی سوچ منفی اور فرقہ وارانہ تھی اور جنھوں نے اس عمل کو رخنہ انداز کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش کا نتیجہ تھا ملک کی تقسیم۔
آزادی کے فوراً بعد کے سالوں میں تال میل اور خیر سگالی کو فروغ دینے والی طاقتیں اثرانداز تھیں، جب کہ تخریب کاری سوچ رکھنے والے کمزور اور حاشیے پر تھے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں فرقہ وارانہ طاقتوں نے بہت تیزی سے اپنا سر اٹھایا ہے۔ وہ ہندوستان کے تنوع کو، ہندوستان کے ہم سب کا ملک ہونے کو قبول ہی نہیں کرنا چاہتے۔ اس روش کی کچھ مثالیں گزشتہ دنوں سامنے آئی ہیں۔
دیوبند کے ایک چھوٹے سے معمولی مدرسے کے مولانا نے مسلم گلوکارہ فرمانی ناز کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ فرمانی ناز کا بھجن ’ہر ہر شمبھو‘ زبردست ہٹ ہوا ہے۔ یہ مولانا صاحب ٹی وی چینلوں کی پہلی پسند ہیں۔ اپنے پرائم ٹائم میں یہ چینل مرغوں کی لڑائی کرواتے ہیں، جنھیں وہ بحث کہتے ہیں۔ ان کے لیے انھیں دونوں مذاہب کے شدت پسند لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جم کر لڑیں اور چینلوں کی ٹی آر بڑھے۔ ان مولانا صاحب کا دارالعلوم دیوبند، جو کہ ملک کا اہم ترین مدرسہ ہے، سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دارالعلوم فتویٰ تبھی جاری کرتا ہے جب کوئی اس سے کسی ایشو پر اس کی رائے دینے کو کہتا ہے۔ فتویٰ دراصل حکم نہیں بلکہ ایک طرح کی رائے ہی ہوتا ہے۔
اسد کاظمی نامی یہ دقیانوسی مولانا شاید ہندو بھجن گلوکاری کی طویل روایت سے واقف نہیں ہیں، جو محمد رفیع سے لے کر فراز خان تک جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ بھجنوں کی موسیقی ڈائریکٹر اے آر رحمن اور نوشاد جیسی غیر معمولی صلاحیتیں رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ذریعہ گائے بھجنوں کی فہرست کسی رجسٹر کے کئی صفحات بھر دے گی، لیکن میں صرف دو مثالیں دینا چاہوں گا۔ میرا سب سے پسندیدہ بھجن ہے ’من تڑپت ہری درشن کو آج‘۔ اس کے بول شکیل بدایونی کے تھے، موسیقی نوشاد کی اور اسے آواز دی تھی محمد رفیع نے۔ بڑے غلام علی خاں صاحب کے ذریعہ گائے بھجن ’ہری اوم تتست‘ کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ اور نہ ہی یہ یکطرفہ ہے۔ کئی ہندو گلوکاروں نے قوالی کو نئی اونچائیاں بخشی ہیں۔ ان میں شامل ہیں پربھا بھارتی اور دھرو سانگری۔
کچھ سال قبل اسی طرح کے علماء نے بنگالی فلم اداکارہ اور رکن پارلیمنٹ نصرت جہاں کو درگا پوجا میں حصہ لینے کے لیے خوب کھری کھوٹی سنائی تھی، جب کہ درگا پوجا بنگال کی ثقافت کا حصہ ہے۔ سرحد کے اس پار پاکستان میں ایک پولیس والے کو ایک مسلم کالج ٹیچر کے بندی لگانے پر اعتراض تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بِندی ہندو مذہب سے جڑی ہوئی چیز ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ وہاں کی حکومت نے اس پولیس والے کو معطل کر دیا۔
منصوبہ بند طریقے سے یہ افواہیں اڑائی جاتی ہیں کہ مساجد میں اسلحے جمع کیے جاتے ہیں جن کا استعمال فرقہ وارانہ فسادات میں ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مساجد میں ہندوؤں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہ بالکل بھی درست نہیں ہے۔ الٹے کئی ہندو مندروں میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ جہاں تک مسجدوں کا سوال ہے، ان میں کوئی بھی جا سکتا ہے۔
الٹے کچھ اسکولوں نے جب اپنے طلبا کو مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کا دورہ کرانے کا فیصلہ لیا تب بجرنگ دل نے اس کی مخالفت کی۔ بڑودہ کے دہلی پبلک اسکول نے بچوں کو ہمارے ملک کے مذہبی تنوع سے روبرو کروانے کے لیے انھیں ایک مسجد میں لے جانے کا اعلان کیا۔ بجرنگ دل نے اس کی مخالفت کی اور اسکول کو متنبہ کیا کہ اگر بچوں کو مسجد لے جایا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پروگرام رد کر دیا گیا۔ اس کے ایک ہفتہ پہلے طلبا کو ایک مندر میں لے جایا گیا تھا۔ اسی طرح کے واقعات دہلی اور کرناٹک میں بھی ہوئے۔
ہماری مشترکہ ثقافت پر یہ حملے مزید تیز اور تلخ ہوتے جا رہے ہیں۔ پولرائزیشن کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال حال میں دیکھنے کو ملی جب کانگریس نے بڑھتی مہنگائی، ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی لگائے جانے اور عوام کو پیش آ رہی دقتوں کے ضمن میں پارلیمنٹ سے راشٹرپتی بھون تک مارچ کیا۔ مظاہرین سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
اپنے کردار کے مطابق بی جے پی نے اس مظاہرہ کا استعمال بھی فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کیا۔ پارٹی کے سرکردہ لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ کانگریس رام مندر کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ کانگریس نے سیاہ کپڑوں میں مظاہرہ کرنے کے لیے اس دن کا انتخاب کیا جس دن 2 سال قبل وزیر اعظم نے رام مندر کے تعمیری کام کا افتتاح کیا تھا۔ امت شاہ کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ کانگریس کی مسلمانوں کو تسکین پہنچانے والی سیاست کا حصہ ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ مطالبہ کیا کہ کانگریس کو رام بھکتوں کی بے عزتی کرنے کے لیے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔
کانگریس نے شاہ-یوگی پر جوابی حملہ بولتے ہوئے کہا کہ وہ دراصل ایک جمہوری احتجاجی مظاہرہ، جو مہنگائی جیسے اہم ایشوز کو لے کر کیا گیا تھا، سے لوگوں کا دھیان ہٹانے کی گھناؤنی کوشش کر رہے ہیں اور سماج کو فرقہ وارانہ بنیاد پر پولرائز کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کی بڑھتی تکلیفوں کی طرف ملک اور حکومت کی توجہ مبذول کرنا ضروری ہے۔
اس احتجاجی مظاہرہ کو رام مندر اور تسکین والی سیاست سے جوڑ کر بی جے پی نے وہی کیا جو وہ برسوں سے کرتی آئی ہے۔ یعنی ہر چیز کو مذہب سے جوڑو، ہر ایشو کو جذباتی بنا دو اور الگ الگ مذاہب کے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پیدا کرو۔ کیا دیگر پارٹیاں اور سماجی گروپ ہر ایشو کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بی جے پی کی کوششوں کا مقابلہ کر سکیں گے؟ کیا جمہوری اور سیکولر شخص اور گروپ لوگوں کی توجہ بنیادی ایشوز سے بھٹکانے کی سنگین کوشش سے نمٹنے کا راستہ تلاش کر پائیں گے؟
بی جے پی اپنے حامی اداروں کے بڑے نیٹورک اور حکومت کے آگے سر بہ سجود میڈیا کے ذریعہ اس ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے جس میں لوگوں کے مسائل کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہدف صرف یہ ہے کہ عوام کو مذہبی اور جذباتی ایشوز میں الجھائے رکھا جائے۔
ہندوستان کی مشترکہ ثقافت پر چوطرفہ حملے ہو رہے ہیں۔ عام لوگوں کی زندگی دشوار ہوتی جا رہی ہے، لیکن ان کے مسائل سے دھیان ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کے مسائل سب سے اوپر ہونے چاہئیں، ہمیں ایک سچی جمہوریت کی تعمیر کے لیے مستقل کوشش کرنی چاہیے۔
(مضمون کا انگریزی سے ہندی ترجمہ امریش ہردینیا کے ذریعہ کیا گیا، اور پھر اس کا اردو ترجمہ ہوا)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔