جن آکانکشا ریلی کی کامیابی نے بہار میں کانگریس کی واپسی کا کر دیا اعلان... سرور احمد

کانگریس نے بہار میں سیاست کا وہ لٹمس ٹیسٹ کامیابی سے پاس کر لیا ہے جس کا تصور کسی نے نہیں کیا تھا۔ خاص طور سے لالو یادو کے سیاسی عروج اور پھر این ڈی اے کے پنپنے کے بعد کانگریس کا ابھرنا خوش آئند ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

بہار کے پٹنہ میں کانگریس کی ’جن آکانکشا ریلی‘ میں جس میں ہر طرح کے لوگوں کی بھیڑ دیکھنے کو ملی اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں گزشتہ تین دہائی کے دوران کانگریس کی یہ پہلی ریلی تھی۔ اس ریلی سے قبل تک صرف بہار کے سیاسی اتحاد کی بات ہو رہی تھی، لیکن اب ایکویشن سماجی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اتر پردیش کے برعکس بہار میں اعلیٰ ذاتیں، اہم پسماندہ ذاتیں، دلت اور مسلم مہاگٹھ بندھن کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔

اس ریلی میں کانگریس صدر راہل گاندھی نے نہ صرف مرکز کی مودی حکومت کی ناکامیاں شمار کرائیں بلکہ بہار کے سماجی-سیاسی اتحاد کو ایک نئے مقام پر لے جانے پر بھی زور دیا۔ انھوں نے صاف کہا کہ نہ صرف مرکز کی نریندر مودی حکومت بلکہ بہار کی نتیش کمار حکومت کو بھی اکھاڑ پھینکنے کی شروعات بھی بہار سے ہوگی۔ راہل گاندھی نے یہ بھی اشارہ کر دیا کہ بہار کا انتخاب تیجسوی یادو کی قیادت میں لڑا جائے گا۔ انھوں نے مہاگٹھ بندھن کے سبھی ساتھیوں اور اپنی پارٹی سے بھی اتحاد دکھانے کے عزم کا اظہار کر دیا ہے۔ صرف راہل گاندھی نے ہی نہیں بلکہ اسٹیج پر موجود مہاگٹھ بندھن کے سبھی ساتھی پارٹیوں اور ایم پی، چھتیس گڑھ و راجستھان کے نو تقرر وزرائے اعلیٰ نے بھی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

حالانکہ کانگریس اور آر جے ڈی پہلے بھی ساتھ مل کر انتخاب لڑ چکے ہیں، لیکن جو نزدیکیاں اور آپسی تال میل دونوں پارٹیوں کے درمیان اس باردیکھنے کو مل رہی ہے، ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قبل میں دونوں پارٹیوں کی اپنی اپنی سماجی بنیادیں تھیں لیکن اس بار ایک مشترکہ سوچ کے ساتھ دونوں کا اتحاد مرکز اور بہار میں برسراقتدار این ڈی اے کے لیے بے چینی کا سبب نظر آنے لگا ہے۔

اس جن آکانکشا ریلی میں سبھی ذاتوں اور طبقات کے لوگوں نے حصہ لیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ حال تک آر جے ڈی کو صرف او بی سی، خاص طور سے یادووں کی اور کانگریس کو مٹھی بھر اعلیٰ ذات کے لیڈروں کی پارٹی تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ ہونے کے 28 سال بعد یادووں اور بھومیہاروں یا پھر برہمنوں، راجپوتوں اور کایستھوں کی تفریق یا سیاسی دشمنی ہوا ہو چکی ہے۔ یوں بھی تیجسوی یادو نے گزشتہ دنوں میں کسی بھی اعلیٰ ذات کے لیے یا ان کے خلاف کوئی تنقیدی بیان نہیں دیا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر اعلیٰ ذاتوں کا ایک گروپ نریندر مودی سے الگ ہوتا ہے تو این ڈی اے کے لیے بہار میں چیلنج بہت بڑا ہو جائے گا۔ ابھی تک تو این ڈی اے بہار کو لے کر پراعتماد ہی نظر آتا رہا ہے۔

نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو جب 2005 میں بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اسے ’الائنس آف ایکسٹریم‘ بتایا تھا۔ ایسا اس لیے کیونکہ نتیش کمار نہ صرف یادووں سے الگ او بی سی اور اعلیٰ ذات کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب رہے بلکہ سماجوادیوں، سابقہ کمیونسٹوں اور ہندوتوا کے کٹر حمایتیوں کو بھی ایک ساتھ لے آئے تھے۔ اب 13 سال بعد پھر سے ایک ایسے ہی اتحاد کا بہار گواہ بننے جا رہا ہے۔

کانگریس کی ’جن آکانکشا ریلی‘ نے بہار کانگریس میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا ہے۔ ابھی تک کئی سیاسی تجزیہ نگار کانگریس کو بہار میں حاشیے کی پارٹی کہتے رہے تھے۔ لیکن گزشتہ سال 11 دسمبر کو تین ہندی بیلٹ ریاستوں میں کانگریس کی فتح نے تجزیہ نگاروں کا نظریہ بھی بدلا ہے، سیاسی سوچ بھی بدلی ہے اور منظرنامہ بھی بدل گیا ہے۔ یہاں سب سے اہم یہ ہے کہ اس ریلی کا انعقاد پوری طرح سے کانگریس نے کیا تھا نہ کہ مہاگٹھ بندھن نے۔ اس طرح اس ریلی میں جمع ہوئی بھیڑ کے کئی معنی ہیں۔ 10 مارچ 1990 کے بعد سے بہار میں کانگریس کبھی اقتدار میں نہیں رہی، پھر بھی پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں اتنی زبردست تعداد میں لوگوں کو جمع کرنا کافی اہم ہے۔ 1990 کے وسط میں صرف ایک بار سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ کا جلسہ اس میدان میں ہوا تھا، لیکن وہ ریلی نہیں تھی بلکہ ایک انتخابی جلسہ تھا۔

کانگریس نے بہار میں سیاست کا وہ لٹمس ٹیسٹ کامیابی کے ساتھ پاس کر لیا ہے جس کا تصور کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔ خاص طور سے لالو یادو کے سیاسی عروج اور پھر این ڈی اے کے پنپنے کے بعد کانگریس کی حالت موجودہ وقت میں جس طرح مضبوط نظر آ رہی ہے، وہ خوش آئند ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔