کانگریس کا احتجاج، ظلم کے خلاف آندولن... نواب علی اختر

یہ ہماری جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ اپوزیشن اقتدار میں نہ رہتے ہوئے بھی حکومت پر اثر انداز ہوا کرتی تھی، تاہم موجودہ صورتحال میں حکومت کسی کو خاطر میں لانے کوتیار نہیں ہے۔

مرکز کے خلاف کانگریس کا مظاہرہ
مرکز کے خلاف کانگریس کا مظاہرہ
user

نواب علی اختر

دنیا کے تقریباً سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی روایات میں اختلاف رائے کا احترام سب سے اہم رہا ہے۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تنقیدیں اگر تعمیری نوعیت کی ہیں تو ان کو قبول کیا جانا اور اپوزیشن کو مطمئن کر کے عوام کو راحت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو عوامی مسائل پر بیدار کرنا اپوزیشن کا فریضہ ہے۔ جب تک دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے اس وقت تک عوام کو مسائل سے نجات نہیں مل سکتی۔ وہیں جمہوریت کا مندر کہلانے والے پارلیمنٹ میں نظم برقرار رکھنا اور کارروائی چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اپوزیشن کی آواز کو دبا کر پوری نہیں کی جا سکتی ہے، ایسا کرنا ذمہ داری سے فرار اختیارکرنا ہے۔

ایسے وقت میں جب پورا ملک مہنگائی کے آنسو رو رہا ہے، حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لیے مخالفین کی زبان بندی پر آمادہ ہے۔ باوجود اس کے اپوزیشن کانگریس نے عوام کے لیے اپنی جوابدہی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جمعہ کے روز جس انداز میں سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک احتجاج کیا اس سے حکومتی حلقوں میں کہرام مچنا فطری ہے۔ ملک میں مہنگائی، اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی شرح میں اضافہ، بے روزگاری جیسے سلگتے مسائل کے خلاف کانگریس پارٹی کے ملک گیر احتجاج کو حالانکہ حکمراں طبقہ محض مودی حکومت کی مخالفت سے تعبیرکر رہا ہے جب کہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی پارٹی کے ہائی کمان سے لے کر کارکنان تک سبھی سیاہ لباس میں سڑک پراترے ہوں۔


دہلی کی سڑکیں جمعہ کے روز محرم کے جلوس جیسا منظر پیش کر رہی تھیں جب کانگریس پارٹی کے رہنما اور کارکنان سیاہ لباس میں ملبوس ہاتھوں میں ترنگا لئے مہنگائی کے خلاف احتجاج کے لیے نکل پڑے۔ ایک طرف مانسون اجلاس سے نکل کر کانگریس پارٹی کی صدرسونیا گاندھی کی قیادت میں ممبران پارلیمنٹ راشٹرپتی بھون کی طرف چل پڑے تو دوسری طرف پارٹی کے کارکنان کے ساتھ ساتھ مہنگائی سے پریشان عام لوگوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حالانکہ کانگریس رہنماؤں کو راشٹرپتی بھون جانے سے روک دیا گیا، مگر دہلی کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں مہنگائی کے خلاف زبردست مظاہرہ دیکھا گیا۔ اس مظاہرے میں ہر طبقے کے لوگ شامل رہے جنہوں نے بڑے پرامن اور خوشگوار انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا۔

مظاہرین نے سیاہ لباس اختیار کر کے احتجاج کو عملی شکل دی کیونکہ سیاہ لباس ظلم اور ناانصافی کے خلاف تحریک کی علامت ہے۔ موجودہ حکومت کا طرز عمل اور اس کے پیادوں کی سرگرمیاں کسی ظلم سے کم نہیں ہیں۔ آج کے مفاد پرست حکمرانوں نے انہیں بھی فراموش کر دیا ہے جن کے ووٹ سے انہیں کرسی نصیب ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مہنگائی کو قبول کرنے سے صاف طور پر انکار کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ وزیر خزانہ بڑی دریدہ دہنی کے ساتھ ایوان میں کہتی نظر آتی ہیں کہ دنیا کے ممالک کے مقابلے ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور ہندوستان کی معیشت دیگر ممالک کے تناسب میں اچھی حالت میں ہے۔


ان حالات میں وزیر خزانہ کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ان کی ’اچھی معیشت‘ کا پیمانہ کیا ہے؟ حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی ملک کے حکمرانوں کی خوشحالی اچھی معیشت کا پیمانہ نہیں ہوتا بلکہ عوام سے معیشت کے اچھے یا برے ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی اپنی حدوں کو پار کرنے لگی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ خود حکومت کے اعداد و شمار سے مہنگائی کا پتہ چلتا ہے لیکن حکومت اپنے ہی اعداد و شمار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے اور ہمارا حکومت نواز میڈیا بھی صرف اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دے کر اپنے فرائض منصبی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

مہنگائی کی صورتحال ماضی میں بھی پیدا ہوئی تھی جس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ حکومت کی ناک کے نیچے دہلی میں صرف پیاز مہنگی ہونے کے نتیجہ میں بی جے پی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ماضی میں یہ روایت رہی تھی جب کبھی مہنگائی عروج پر پہنچتی، حکومت اس کا اعتراف بھی کرتی اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے جاتے، تاہم وہ بے نتیجہ بھی ہوا کرتے تھے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس مسئلہ پر احتجاج کیا جاتا، پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ اٹھایا جاتا، حکومت کے ساتھ مباحثے کئے جاتے، حکومت سے سوال پوچھے جاتے اور پارلیمنٹ کے باہر بھی ملک بھر میں سڑکوں پر اتر کر احتجاج درج کروایا جاتا۔


ملک کی تقریباً سبھی ریاستوں میں اور تقریباً تمام بڑے شہروں میں یہ احتجاج کیا جاتا تھا۔ حکومت اس احتجاج کا سامنا بھی کرتی لیکن احتجاج کو کچلنے اور ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ کوئی گرفتاریاں کی جاتیں۔ جب صورتحال بگڑتی اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوتا تو کچھ کارروائی ضرور کی جاتی لیکن حقیقت سے بالکل انکار کبھی نہیں کیا گیا۔ ماضی میں باجپئی زیر قیادت بی جے پی حکومت میں بھی مہنگائی ہوئی تھی اور حکومت اور اس کے ذمہ داروں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف وجوہات بتائی تھیں۔ حقیقت سے صریح انکار نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ملک کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس طرح اپوزیشن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے اور عوامی مسائل پر حکومت کو توجہ دلانے کا موقع دستیاب ہوتا تھا۔ یہ ہماری جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ اپوزیشن اقتدار میں نہ رہتے ہوئے بھی حکومت پر اثر انداز ہوا کرتی تھی، تاہم موجودہ صورتحال میں حکومت کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ کسی کا وجود برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو پوری طاقت سے کچلنے کی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن اگر ایوان میں مباحث کیلئے اصرار کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا ہے۔ کسی رکن کے سوال کا جواب دینا حکومت اپنی توہین سمجھتی ہے۔ ایوان کے باہر اگر احتجاج کیا جاتا ہے تو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، قائدین کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔