کانگریس امیدوار ہیم لتا پٹیل: گلابی گینگ کی وہ لیڈر جن سے پرینکا گاندھی نے کہا تھا ’ایک گلابی ساڑی مجھے بھی دو‘
ہیم لتا کہتی ہیں کہ ’’ہمیشہ سے میری کوشش رہی کہ خواتین مردوں کی بالادستی والے سماج میں عزت کے ساتھ جئیں اور خود کفیل بنیں، بندیل کھنڈ میں بہت زیادہ پچھڑاپن ہے، خصوصاً خواتین کے حالات کافی خراب ہیں۔‘‘
16 سال کی عمر میں ہیم لتا پٹیل کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد پڑھائی کی۔ پہلے وہ گاؤں کی پردھان بنی، پھر کسان تنظیم میں رہ کر کسانوں کے مفاد کی لڑائی لڑی۔ اس کے بعد چترکوٹ کی سمپت پال کے ساتھ مل کر گلابی گینگ تیار کیا۔ جس نے بندیل کھنڈ کی خواتین میں انقلاب لا دیا۔ اب وہ کانگریس کے ٹکٹ پر فتح پور کی ایاہ شاہ سیٹ سے مضبوط امیدواروں کے درمیان اسمبلی انتخاب لڑ رہی ہیں۔ باندہ کے چلّاپار کی رہنے والی ہیم لتا پٹیل کی کہانی ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم کی بہترین مثال ہیں۔
انقلابی خواتین کی زمین بندیل کھنڈ کی ہیم لتا پٹیل دنیا بھر میں مشہور گلابی گینگ کی بانی رکن ہیں۔ وہ اس وقت گلابی گینگ لوک تانترک نام سے تنظیم چلا رہی ہیں۔ اس سے پہلے ہیم لتا پٹیل نے بھی سمپت پال کے ساتھ مل کر بندیل کھنڈ کی خواتین کے سب سے مضبوط گروپ گلابی گینگ کی بنیاد ڈالی تھی۔ گلابی گینگ میں ہزاروں خواتین کارکنان ہیں۔ یہ خواتین لاٹھی چلانے میں ماہر ہیں۔ وہ مقامی سطح پر مختلف طرح کے خواتین پر ہو رہے استحصال کے خلاف مضبوط آواز ہیں۔ گلابی گینگ کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ملک و بیرون ملک میں کئی جگہ اس پر فلمیں بن چکی ہیں۔ ہیم لتا پٹیل بتاتی ہیں کہ جب کانگریس کی اتر پردیش انچارج پرینکا گاندھی نے بلا کر ان سے بات کی اور کہا کہ ایک گلابی ساڑی انھیں بھی دلوا دو، تو یہ ان کی زندگی کا بہترین لمحہ تھا۔ دراصل اس تنظیم کی سبھی خواتین گلابی ساڑی ہی پہنتی ہیں اور لاٹھی لے کر چلتی ہیں۔
مضبوط عزائم اور ناانصافی کے خلاف جنگجویانہ رویہ رکھنے والی ہیم لتا پٹیل سیاست میں کانگریس کے ذریعہ سے ہی سرگرم ہوئی ہیں۔ وہ فتح پور خاتون کانگریس کی ضلع صدر بھی ہیں۔ حال کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس نے انھیں ایاہ شاہ اسمبلی سیٹ سے امیدوار بنایا ہے۔ ہیم لتا پٹیل بتاتی ہیں کہ انھیں کام کرانے کے لیے اکثر لیڈروں اور عوامی نمائندوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ جہاں سے انھیں ٹال مٹول اور منفی رد عمل کئی بارے ملے ہیں۔ اس ماحول کو بہتر کرنے کے لیے اور خواتین کو براہ راست قوت عطا کرنے کے لیے وہ انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ فتحیاب ہوئیں تو ناانصافی کے خلاف مزید مضبوطی کے ساتھ آواز اٹھائیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ مردوں کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہماری ترجیح خواتین کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ہیم لتا پٹیل کانگریس کی مہم ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم کی علامت ہیں۔
ہیم لتا پٹیل جس ایاہ شاہ اسمبلی میں انتخاب لڑ رہی ہیں، وہاں سے سماجوادی پارٹی نے اپنے راجیہ سبھا رکن اور پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری وشومبھر پرساد نشاد کو میدان میں اتارا ہے۔ سماجوادی پارٹی نے نشاد چہرہ اتار کر بی جے پی کے او بی سی ووٹ بینک میں سیندھ لگا دی ہے۔ وشومبھر نشاد کے آنے سے اس سیٹ کے حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ بی جے پی یہاں سابق وزیر ایودھیا پرساد پال کو لڑا رہی ہے۔ ہیم لتا پٹیل نے انتخاب کو سہ رخی بنا دیا ہے۔ خواتین کے مفادات کے لیے جدوجہد کرنے والی ہیم لتا پٹیل 2010 میں اپنے گاؤں سے پردھان چنی گئی تھیں۔ ہیم لتا بتاتی ہیں کہ انھوں نے لوگوں کی گزارش پر انتخاب لڑا اور گاؤں کے لوگوں نے انھیں کامیاب بھی بنا دیا۔ ہیم لتا نے اپنی مدت کار میں تاریخی کام کروائے جن میں اہم کام یہ تھا کہ گاؤں میں ایک گرلس انٹر کالج کی تعمیر ہوئی اور ساتھ ہی ایک ماڈل اسکول بھی تیار کیا گیا۔ ہیم لتا بتاتی ہیں کہ گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا اور لڑکیوں کے سرپرست دوسرے گاؤں کے اسکول میں انھیں بھیجنے سے ڈرتے تھے۔ ہیم لتا کہتی ہیں کہ انر کالج بنوانا ایک پردھان کے حلقہ اختیار سے باہر کی چیز ہے، پھر بھی انھوں نے اسے ممکن کر دکھایا۔
ہیم لتا پٹیل کو بہت زیادہ مقبولیت باندہ کے مشہور شیلو قتل عام سے ملی۔ اس عصمت دری واقعہ کے بعد اتر پردیش کی سیاست میں طوفان آ گیا۔ بعد میں یہ واقعہ بھی 2012 میں بی ایس پی کی شکست کی ایک وجہ بنی۔ ہیم لتا پٹیل بتاتی ہیں کہ ان کی تنظیم میں آس پاس کے اضلاع کی ملا کر تقریباً 5000 عورتیں جڑی ہوئی ہیں۔ ہیم لتا فتح پور سمیت دیگر آس پاس کے اضلاع میں خواتین پر تشدد اور استحصال کے خلاف لڑتی ہیں، خواتین کو حقوق دلوانے سے متعلق جدوجہد کے لیے جانی جاتی ہیں۔
ہیم لتا بتاتی ہیں کہ ان کی تنظیم میں خواتین کو خود مختار بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت کے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں جس کو ’گلابی آتم رکشا پہل‘ کہا جاتا ہے۔ خواتین کے تئیں بڑھتے تشدد کو دیکھتے ہوئے انھیں لاٹھی چلانا سکھایا جاتا تھا، تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں۔ گلابی گینگ لوک تانترک کے تحت گلابی پنچایت بلائی جاتی رہی ہے جس میں خواتین اپنی اپنی پریشانی لے کر آتی تھیں اور اس پریشانی کا حل بھی نکالا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ خواتین کے سبھی مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ہیم لتا پٹیل ’گلابی مہیلا سویم سہایتا سموہ‘ بنا کر گاؤں کی خواتین کو روزگار دے کر خودکفیل بھی بنا رہی ہیں۔ ہیم لتا بتاتی ہیں کہ 2017 اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب کے دوران انھوں نے 50 فیصد پنچایتی انتخابات میں خواتین کے ریزرویشن کا ایشو بھی اٹھایا تھا۔ کانگریس کا ٹکٹ تقسیم میں 40 فیصد ریزرویشن اس ضمن میں ایک شاندار پیش قدمی ہے۔
ہیم لتا کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پرینکا جی کے اتر پردیش انچارج بننے پر ان کی زندگی میں کافی تبدیلی آئی۔ وہ خواتین کے ایشوز پر میری سرگرمی سمیت سماجی خدمت سے بہت متاثر ہوئیں اور مجھے انھوں نے لکھنؤ بلوایا۔ یہاں پرینکا گاندھی جی نے انھیں کانگریس میں شامل ہونے کے لیے کہا جو ان کے لیے ایک باوقار لمحہ تھا۔ ہیم لتا بتاتی ہیں کہ پرینکا گاندھی نے ایک ریلی کے دوران بھی کہا تھا کہ ’’ہیم لتا ایک گلابی ساڑی مجھے بھی چاہیے۔‘‘
گلابی گینگ کی رکن سنیتا ورما کہتی ہیں کہ ’’دیدی نے انھیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا سکھایا ہے۔ دیدی سے ہمیں بہت ہمت اور توانائی ملتی ہے۔‘‘ ہیم لتا کی تنظیم سے جڑی ایک دیگر خاتون سدھا پٹیل بتاتی ہیں کہ ’’آج جو گاؤں میں اسکول ہے، سب دیدی کی محنت کی دین ہیں۔ ہمارے بچے آج گاؤں کے ہی ساکول جاتے ہیں۔ پہلے انھیں دوسرے گاؤں کے اسکول جانا پڑتا تھا۔‘‘ ہیم لتا کے گاؤں کی ایک دیگر خاتون شہناز بتاتی ہیں کہ ’’ہمارے ہر چھوٹے بڑے سرکاری کام دیدی ہی کرواتی ہیں۔ ہم اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ ہیم لتا دیدی نے ہمارا پنشن سے لے کر راشن کارڈ بنوانے تک کا کام کروایا ہے۔‘‘ ہیم لتا کہتی ہیں کہ ’’ہمیشہ سے میری کوشش رہی ہے کہ خواتین مردوں کی بالادستی والے سماج میں عزت کے ساتھ جئیں اور خود کفیل بنیں۔ بندیل کھنڈ میں بہت زیادہ پچھڑاپن ہے۔ خصوصاً خواتین کے حالات کافی خراب ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ خواتین مضبوط ہوں تبھی ایک کنبہ مضبوط ہوگا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔