مودی سرکار 2.0 کے ایک سال، ’گرے تو بھی ٹانگیں اوپر‘... اعظم شہاب
پردھان سیوک کی حکومت کے پاس جشن منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پچھلے 6 سالوں سے ہم صرف تباہی کی جانب گامزن ہیں، اس کی وجہ صرف ویژن کی کمی اور جذباتی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر ملک کو چلانے کی کوشش ہے۔
ہمیشہ الیکشن موڈ میں رہنے والے مودی جی اپنی دوسری حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر تھوڑی دیر کے لیے جشن کے موڈ میں آگئے ہیں۔ گوکہ یہ بھی الیکشن موڈ کا ہی ایک حصہ ہے، مگر چونکہ ملک کے نام اپنے مکتوب میں انہوں نے اپنی کچھ حصولیابیوں کو بیان کیا ہے، اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کچھ تذکرہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس دوسری حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پرملک عالمی سطح پر قائدانہ رول ادا کرنے کے لائق ہوا ہے اور ملک کے شہریوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے وہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کی پچھلی حکومت میں ہماری یہ پوزیشن نہیں تھی۔ خیر!۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے لاگو کیے گئے ملک بندی کے سبب 1947 سے بھی بھیانک مہاجرت کا مشاہدہ کرنے والے اس ملک میں عام شہریوں کا خواب کس قدر شرمندہ تعبیر ہوا ہے؟ اس کا اندازہ 4 سال بعد ہی ہوسکے گا، لیکن ملک کے قائدانہ رول پر کچھ باتیں لائق توجہ ضرور ہیں۔
ہم بات سب سے پہلے پڑوسی ملک نیپال کی کرتے ہیں جو ہمارا سب سے بڑا دیرینہ حلیف بھی رہ چکا ہے۔ نیپال نے ابھی حال ہی میں اپنا ایک نقشہ جاری کیا جس میں اس نے بھارت کا سرحدی علاقہ لیپو لیکھ، کالاپانی اور لمپیا دھورا کو اپناحصہ قرار دیا۔ حالانکہ وہ اسے قانونی درجہ دینے کے لیے اپنے دستور میں تبدیلی کے عمل کو ملتوی کردیا ہے، لیکن وہ اپنے اس موقف سے پیچھے بھی نہیں ہٹا ہے کہ مذکورہ علاقے اس کے حصے ہیں۔ نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اس کے لیے نیپال کی کل جماعتی میٹنگ میں عام رضامندی حاصل کرنے کی بات کہی ہے۔ یعنی کہ اگرنیپال کی تمام پارٹیاں متفقہ طور پر نیپال حکومت کے موقف کی حمایت کردیتی ہیں تو نیپال مذکورہ علاقوں پر اپنے دعوے کو مزید مضبوطی کے ساتھ رکھے گا اور اس کے لیے وہ اپنے دستور میں تبدیلی بھی لائے گا۔
نیپال اگر ایک جانب سے بھارت کا پڑوسی ہے تو دوسری جانب اس کی سرحدیں چین سے بھی ملتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ ہمارا سب سے دیرینہ حلیف ہمارے قائدانہ رول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کے قائدانہ رول سے زیادہ متاثر ہوگیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہمیں اپنے عالمی قیادت کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ بھارت نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ سلجھانے کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یعنی کہ نیپال اپنے یہاں کی سیاسی پارٹیوں کی عام رضامندی حاصل کرتا ہے تو کرے، ہم اس سے اپنے ہی ملک کے حصے پر، اپنی ہی جانب سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ایسا قائدانہ رول آپ کو کبھی دیکھنے کو ملا ہے؟ اگر ملا ہو تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔
یہ بھی پڑھیں : طنز و مزاح: خراشیں، جدید سودیشی ریل... تقدیس نقوی
اب چین کی بات بھی کرلیتے ہیں جسے اپنی پہلی حکومت کے انتخابی مہم میں مہاشے جی نے ’لال لال آنکھیں کرکے سمجھانے‘ کی بات کی تھی۔ آج وہی ہمیں اپنی لال لال آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ہوا یوں کہ ہفتہ بھر قبل یعنی کہ 25 مئی کو مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول ( ایل اے سی) پر چین کی فوج تقریباً دس کلومیٹر تک اندر تک گھس آئی اور اپنے بیرک بھی بنانے شروع کردیئے۔ گودی میڈیا سے تو یہ خبرغائب رہی لیکن غیرملکی سوشل میڈیا پر اس تعلق سے جو خبریں آئیں اس سے معلوم ہوا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں ہیں۔
مشرقی لداخ کے ایل اے سی پر گزشتہ دو ماہ سے چین اور ہمارے ملک کے درمیان تناؤ قائم ہے۔ اس تنازعے کو سلجھانے کے لیے ہماری حکومت کئی اعلیٰ سطحی میٹنگ کرچکی ہے جس میں پردھان سیوک کے علاوہ راج ناتھ سنگھ، اجیت ڈووال، بین راوت اور تینوں افواج کے سربراہان شامل تھے۔ لیکن ابھی تک تنازعہ جوں کا توں برقرار ہے۔ ہمارے ملک نے اس علاقے میں پنگوگ تسو جھیل اور گالوان ویلی میں اپنی فوجیں بڑھا دی ہیں جبکہ دوسری جانب چین نے دو سے ڈھائی ہزار فوجیں تعینات کر رکھی ہیں۔ چین لداخ کے ان علاقوں پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جب کہ یہ ہماری سرحدوں کے اندر واقع ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ چین کا یہ تنازعہ بڑھتا ہے تو یہ 2017 کے ڈوکلام تنازعے کے بعد کا سب سے بڑا تنازعہ ہوسکتا ہے۔ یعنی کہ ہمیں اپنی ہی سرحد کے اندر اپنے ہی علاقے کو اپنے ہی قبضے میں رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ تو دوستو کیسا رہا ہمارے پردھان سیوک کا یہ بھارت جس نے عالمی سطح پر قائدانہ رول ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پرقائدانہ رول ادا کرنے کے لائق ہوئے اس ملک کے سرحدی علاقے کس قدر محفوظ ہیں۔
خیر یہ تو رہے سرحدی علاقوں کا تنازعہ جو تقریباً دنیا کے تمام مالک کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ آج جب کہ پوری دنیا کورونا کی وبا کے چپیٹ میں ہے، کوئی بھی ملک ہمارے ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں جب ہمارے پردھان سیوک کی حکومت کو رافیل طیارہ نگلنے کی تیاری کر رہا تھا کہ پلوامہ کی سنجیونی نے اسے بچالیا۔ لیکن اس کے بعد سے پردھان سیوک نے جنہوں نے 2014 میں دس سال تک صرف ملک کی ترقی پر اپنا فوکس رکھنے کی بات کہی تھی، اپنے پورے رخ کو جذباتی باتوں، قوم پرستی کے نعروں اور مذہبی فرقہ پرستی کی جانب موڑ دیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ آج دنیا کے تقریباً تمام ممالک ہمارے کان اینٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ گرنے کے بعد بھی ٹانگیں اوپر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کی دوستی کو ہمارے پردھان سیوک اپنے لیے ایک معراج سے کم تصور نہیں کرتے۔ لیکن شاید یہ بھول جاتے ہیں ٹرمپ امریکہ نہیں ہیں اور امریکہ ٹرمپ نہیں ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے ہی سرکاری ادارے کئی بار ہم پر تنقیدیں کرتے ہیں اور مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہم پر پابندی عائد کرنے کی بات کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کی تنظیم اوآئی سی علانیہ طور پر مودی حکومت پر تنقید کرچکا ہے۔ اسلاموفوبیا کی وبا سے متاثر ہونے والے مودی بھکت دبئی، کویت ہی نہیں بلکہ کناڈا تک میں دیش کی ناک کٹوا رہے ہیں۔
کشمیر سے 370 ہٹانے، تین طلاق مخالف قانون پاس کرنے، بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کے فیصلے کروانے اور این آرسی وسی اے اے لانے سے اگر ہمارے پردھان سیوک جی سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہمارے ملک کی شبیہ بہت بہتر ہوئی ہے تو پھر ان کی اس سمجھ کو کیا کہا جاسکتا ہے؟ ان کی مرضی ہے وہ ریت میں اپنا سرچھپاتے رہیں۔ مگر دنیا تو سب جانتی ہے نا؟ سچائی یہ ہے کہ ہمارے پردھان سیوک کی حکومت کے پاس جشن منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال ہی نہیں بلکہ پچھلے 6 سالوں سے ہم صرف تباہی کی جانب ہی جا رہے ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف ویژن کی کمی اور جذباتی وفرقہ وارانہ بنیادوں پر ملک کو چلانے کی کوشش ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ 8 فیصد جی ڈی پی والے اس ملک کی معیشت ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے، مگر ہمارے پردھا سیوک جی کا نعرہ ہے کہ ’سب چنگا سی‘۔ تو پھرلگے رہو صاحب، ہم بھی ڈھول بجاتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔