یوگی آدتیہ ناتھ کومسلمانوں اور دلتوں سے کوئی مطلب نہیں!

یوگی جی اب آپ کی حکومت کے دوسال ہوچکے ہیں،عوام کو بتانے کے لئے کچھ کام کریئے یا آخری وقت میں آپ بھی ’چوکید ار‘ کی طرح کوئی ’جملہ‘ لے کر آجا ئیں گے ۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے منگل کو اپنے دوسال پورے کر لئے۔ اس موقع پرسیاسی ماہرین کا ماننا تھا کہ عام انتخابات کے دوران بی جے پی کی ڈگمگاتی کشتی کوپار لگانے کے لئے مہنت یوگی آدتیہ ناتھ ’بغیرکچھ کیے‘ اپنی پیٹھ تھپتھپا سکتے ہیں مگر ایسے لوگوں کوکافی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ اپنی حکومت کے دوسال پورے ہونے پرریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پہلے کی طرح اس بار بھی اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کی بجائے یوگی فرقہ واریت کو ہی اکساتے رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک طرف جہاں ہندوتوا کا مسئلہ اٹھایا وہیں مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا کہ ان کی حکومت میں کوئی بھی فساد نہیں ہوا۔ جہاں تک میں نے سنا ہے کہ اپنا زیادہ تروقت پوجا پاٹھ اوردھیان ابھیاس میں گزارنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کو گورکھپور فرقہ وارانہ فساد ہو یا بابری مسجد کی شہادت، تمام واقعات یاد ہیں مگرچند ماہ قبل (دسمبر2018میں) بلندشہرمیں ہوئے خوفناک فساد شاید وہ بھول گئے ہیں یا اسے دانستہ طور پر نظرانداز کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یوگی جی کی نظرمیں بلند شہرکا فساد معمولی جھگڑا رہا ہو اور وہاں اپنے فرائض انجام دے رہے انسپکٹرسبودھ کمار کا بہیمانہ قتل ایک حادثہ ہو مگراس فساد نے اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ملک کوپریشان کردیا تھا۔ مقتول کا خاندان آج بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔

یوپی بی جے پی حکومت کی سالگرہ پرامید کی جارہی تھی کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ کے سیاسی مکھیا ہونے کے ناطے یوگی آدتیہ ناتھ اپنا رپورٹ کارڈ پیش کرتے ہوئے کچھ باتیں کہہ سکتے ہیں، مگر زیادہ ترلوگوں کویقین تھا کہ عام انتخابات کودیکھتے ہوئے بی جے پی بڑی چالاکی سے ہندوتوا کارڈ کھیل سکتی ہے اورایساہی ہوا۔ اکثریتی طبقے کی مبینہ مظلومیت کا رونا روتے ہوئے یوگی نے دعویٰ کیا کہ پیشرو حکومتوں کے دوران ریاست میں فسادات کا سلسلہ چلتا رہا۔ درجنوں ایسے علاقے تھے جہاں سے اقلیتی ہندوؤں کواپنے گھربار چھوڑنے پڑے تھے، کیرانہ اور کاندھلہ اس کی مثال ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی کرکے چلے گئے تھے، وہ شرپسند عناصر کے ہاتھوں اپنے گھر بیچنے کو مجبور تھے۔ یوپی میں بی جے پی کی حکومت آئی تونقل مکانی کرکے چلے گئے ہندو لوٹنے لگے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بڑے افسوس کی بات ہے، کیونکہ بی جے پی حکومت قائم ہوئے دوسال گزر گئے ہیں مگر کیا ایسے لوگوں کواب بھی اس حکومت پراعتبار نہیں ہے جوآہستہ آہستہ واپسی کررہے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر یوگی جی ایسے کسی ایک متاثرہ کو بھی ثبوت کے طور پرمیڈیا کے سامنے لائے ہوتے۔ مگرکہیں سے کوئی ایسی خبرنہیں کہ علاقے کے ہندو اپنا گھربار چھوڑ کرنقل مکانی کرگئے اوراب واپس آرہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یوگی جی کا دعویٰ بی جے پی کے پرانے جھوٹ کی ہی ایک کڑی ہے جب ان کے سینئر اور کیرانہ سے لوک سبھارکن رہے آنجہانی حکم سنگھ نے چلا چلا کر کہا تھا کہ علاقے سے ہندونقل مکانی کر رہے ہیں مگرجب کھوجی میڈیا نے اپنے کھوجی گھوڑے دوڑائے تو یہ جھوٹ بے نقاب ہوگیا تھا۔

کیرانہ اور آس پاس کے کئی لوگ علاقے سے دور رہ رہے تھے، ان سے جب معلوم کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ڈر کی وجہ سے اپنے گھر کو چھوڑ کرنہیں گئے ہیں بلکہ وہ تو کئی سالوں سے روزگار کے لئے اپنے گھر اور رشتہ داروں سے دور رہ رہے ہیں اورجب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے گھر آتے ہیں۔ اس وقت بی جے پی کی خوب جگ ہنسائی ہوئی تھی، لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ واقعات یوگی جی کے کانوں تک نہ پہنچنے ہوں کیونکہ ممکن ہے جب یہ سب ہو رہا تھا، وہ کہیں مٹھ میں بیٹھے گھنٹی بجا رہے ہوں۔ ارے یوگی جی اب آپ کی حکومت کے دوسال ہوچکے ہیں،عوام کو بتانے کے لئے کچھ کام کریئے یا آخری وقت میں آپ بھی’چوکیدار‘ کی طرح کوئی ’جملہ‘ لے کر آجائیں گے اور پورا الیکشن یوں ہی گزاردیں گے۔ اترپردیش میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں، کسان پریشان حال ہیں، غریب اورغریب ہوتا جا رہا ہے جب کہ امیر اور امیر ہوتا جا رہا ہے، ریاست کی انتظامیہ انکاؤنٹرمیں لگی رہتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کی حفاظت رام بھروسے چل رہی ہے۔

یوگی جی! آپ کی ریاست میں مسلمانوں اور دلتوں کی بھی بڑی آبادی سکونت پذیر ہے اور موجودہ حکومت میں یہ طبقات کافی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ کیا اس طبقے کے لئے بی جے پی حکومت نہیں ہے؟ کیا آپ اس طبقے کے وزیراعلیٰ نہیں ہیں؟۔ ذرا اس پربھی دھیان دیجئے۔

عوام اپنے بنیادی مسائل کو دور کرنے کے لئے ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کرتی ہے تاکہ استحصال زدہ عوام کی آواز کو ’اوپر‘ تک پہنچایا جا سکے، نہ کہ آپ کرسی پاکرہندوتوا کی مالا جپتے رہیے۔ اب آپ نیتا سے بڑھ کرایک ذمہ دارعہدے پرہیں اس لئے آپ کے منہ سے اب ہندوتوا کی بات زیب نہیں دیتی۔ یاد رکھیے کہ آپ وزیراعلیٰ ہیں اور وزیراعلیٰ عوام کا ہوتا ہے نہ کہ صرف کسی ایک مذہب یافرقے کا۔

کسی بھی ملک یا ریاست کے سربراہ کے منہ سے فساد، ذات برادری جیسے الفاظ سے غلط پیغام جاتا ہے۔اکثرد یکھا گیا ہے جب ایسے ذمہ دارعہدے پربیٹھے لوگوں نے قابل اعتراض موضوعات یا زبان کا استعمال کیا ہے،اس کا منفی ردعمل سامنے آیا ہے اس لئے کہ حکمراں طبقے کے لوگ اور ان کے حامی ایسے تبصروں کو ’اندر کی بات‘ مان کر اپنی حوصلہ افزائی کے طور پرلیتے ہیں اورپھر وہ کربیٹھتے ہیں جن کے لئے آئین اورقانون ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

اب اگریوگی جی کے دعوے کے مطابق پیشرو حکومتوں کے مقابلے بی جے پی حکومت میں فساد نہیں ہوئے تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ فساد کرانے والے بی جے پی اور اس کے اپنے ہی لوگ ہوتے تھے جوغیر بی جے پی حکومتوں کو بدنام کرنے کے لئے فساد کراتے تھے اور اب جبکہ ان کی اپنی حکومت آگئی ہے تو وہ ایسی حرکتیں نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ان کی حکومت کی بدنامی ہوگی اور ملک وبیرون ملک بی جے پی کی شبیہ خراب ہوگی۔

کسی بھی مقام پرفساد نہ ہونے کا سہرا وہاں کے عوام کے سرباندھا جانا چاہیے کیونکہ عوام کبھی نہیں چاہتی کہ اس کے علاقے میں تشدد ہو، املاک تباہ کی جاییں، نفرت پھیلائی جائے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ناپید کیا جائے۔ یہ تو ایسے مٹھی بھرانسانیت کے دشمن لوگوں کی حرکت ہوتی ہے جوذاتی مفاد خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی، کے لئے عوام کو بھڑکا کربازار سجا دیتے ہیں۔ مشہور تو یہاں تک ہے کہ بی جے پی حکومتوں میں سب سے زیادہ فساد ہوتے ہیں، نفرت پھیلائی جاتی ہے اور پھر اکثریتی طبقے کے مقابلے اقلیتوں کو استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اب جب کہ ایسے لوگ خود اقتدار کی کرسی پرقابض ہوچکے ہیں تو وہ اپنی گردن بچانے کے لئے ایسے کسی بھی کام سے گریز کرتے ہیں جس سے تشدد بھڑک سکتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ان کی اپنی بدنامی ہوگی اور اقتدار سے باہر ہوتے ہی یہ لوگ پھرسماج میں اپنی متعصبانہ اورمنافرت پھیلانے والی سرگرمیوں میں مصروف ہوجائیں گے جس سے تشدد بھڑک سکے اور غیر بی جے پی حکومتوں کی بدنامی ہوسکے۔

یاد رہے کہ ہندوستان گاندھی، امبیڈکر، اشفاق اللہ خاں جیسے مجاہدین آزادی کا ملک ہے۔ یہاں ہندو اور مسلمان دونوں ساتھ رہتے ہیں اوربڑے پیار اور محبت سے رہتے ہیں۔ کثرت میں وحدت ہی ہندوستان کی منفرد شناخت رہی ہے اور یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی میں ملک اور ملت کی ترقی کا رازمضمر ہے۔ فسادات اور فرقہ واریت سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے صرف نقصان ہوتا ہے اور اگر کوئی اس کو اپنے لئے فائدے مند سمجھتا ہے تو ایسے نادان لوگوں کومیرا ادنیٰ مشورہ ہے کہ وہ یہ تجربہ پہلے اپنے خاندان یا گھرمیں کریں تب سمجھ میں آجائے گا کہ اس سے کتنا بڑا نقصان ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Mar 2019, 6:10 PM