بی جے پی کا گیم پلان شیوسینا کو برباد کرنے کا ہے، لیکن ادھو ٹھاکرے پیچھے ہٹنے سے رہے
یہ صاف ہے کہ جب سے مہاراشٹر میں شیوسینا کی حکومت بنی تھی، بی جے پی پر اسے گرانے کا بھوت چڑھا ہوا تھا اور اس نے ای ڈی نہیں، بالآخر سپریم کورٹ کے ذریعہ اسے ہٹا دیا۔
جب اُدھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ بنے تھے تو ایک بڑے طبقہ نے ان کے بہت ہی بھولے بھالے ہونے اور مہاراشٹر جیسی مشکل ریاست میں حکومت چلانے میں تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ناک بھوں سکوڑی تھی۔ لیکن تین سال بعد جب انھوں نے اس عہدہ سے استعفیٰ دیا تو مسلمان ان کے لیے دعا کر رہے تھے، لبرل ان کی حمایت کر رہے تھے، سماجوادی ایسی پارٹی کو قبول کرتے ہوئے حیران تھے جو پہلے کٹرپسندی کی وجہ سے جانی جاتی تھی اور غریب اس بات کو یاد کر رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے کھانے پینے کا کس طرح انتظام کیا گیا تھا اور متفکر تھے کہ پتہ نہیں ان کا مستقبل کیسا ہوگا۔
یہ سب بال ٹھاکرے کو بھی حیران کر رہا ہوگا کیونکہ انھیں بھی کبھی اس قسم کی حمایت نہیں مل پائی تھی، لیکن انھیں اس بات کا فخر ہو رہا ہوگا کہ ان کے بیٹے نے حاشیہ سے ان کی پارٹی کو مین اسٹریم میں لا دیا اور وہ بھی بی جے پی کی حمایت کے بغیر۔ ادھو کو حال کے سالوں میں مہاراشٹر کا سب سے اچھا وزیر اعلیٰ بتایا جا رہا ہے اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ ایسا شخص جو پہلے نہ انتخابی سیاست کا حصہ رہا ہے یا نہ جسے حکومت چلانے کا ذرا بھی تجربہ رہا ہے، اپنی دانشمندی سے یہ جان سکا کہ صحیح وقت پر کون سا قدم اٹھانا ہے۔
یہ صاف ہے کہ جب سے یہ حکومت بنی تھی، بی جے پی پر اسے گرانے کا بھوت چڑھا ہوا تھا اور اس نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نہیں، بالآخر سپریم کورٹ کے ذریعہ اسے ہٹا دیا۔ اس نے تین سال کے دوران ہر جتن کیے۔ ان لوگوں نے ٹی وی فلم اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کو قتل میں بدل دیا اور اس معاملے میں ان کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے کو لپیٹنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن سی بی آئی بھی اس تعلق سے کوئی ثبوت حاصل نہیں کر سکا۔ جب بچہ چوری کے اندیشہ میں پالگھر کے ایک گاؤں میں دو سادھوؤں کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا، تب ان لوگوں نے اعلان کیا کہ ادھو ہندو مخالف ہیں۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ جن گاؤں کے لوگوں نے قتل کیا، وہ سبھی بی جے پی حامی تھے بلکہ وہاں کا سرپنچ بھی بی جے پی ٹکٹ پر چنا گیا تھا۔
بی جے پی نے ریاست میں کووڈ معاملوں کو نظر انداز کیے جانے سے متعلق بھی وقت وقت پر افواہیں پھیلائیں۔ لیکن یہاں اعداد و شمار زیادہ اس لیے تھے کیونکہ گجرات یا یوپی کی طرح مہاراشٹر حکومت انھیں چھپا نہیں رہی تھی۔ اسی طرح اس نے دیگر ریاستوں کے برعکس مہاجر مزدوروں کو کھانے پینے اور رہنے دونوں کا انتظام کرایا اور جب دوسری لہر آئی تو دوسری ریاستوں کے آکسیجن بحران نے دکھایا کہ یہاں انتظامیہ نے کس طرح بہتر انتظام کر رکھا تھا۔ پھر جب دیویندر فڑنویس نے حکومت چلانے کے خیال سے انھیں بوڑھا اور بیمار بتایا (فڑنویس ویسے شرد پوار کے ساتھ بھی ایسا کر چکے ہیں) تب ادھو اسپائنل سرجری کے باوجود پھر حکومت چلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور سب کچھ ویسا ہی چلتا رہا جیسا پہلے چل رہا تھا۔
ادھو ٹھاکرے ای ڈی کی دھمکیوں پر بھی نہیں جھکے۔ ان کے، ان کے کنبہ کے، یہاں تک کہ دور کے رشتہ داروں تک کے خلاف بھی کچھ نہیں مل پایا۔ انھیں مرکزی ایجنسی نے خوب تنگ کیا۔ ادھو لبرل ’سرو دھرم سمبھاؤ‘ قسم کے ہندوواد کے طور پر ہندوتوا کی از سر نو تعریف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ خوفزدہ بی جے پی اس سے ہی سب سے زیادہ ڈری ہوئی رہی کیونکہ اس کے مراٹھی وقار کے جذبہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بی جے پی ہندوتوا ووٹ کا بڑا حصہ گنوا سکتی تھی۔
ایکناتھ شندے بال ٹھاکرے کے جس ہندوتوا کی بات کرتے ہیں، وہ کیا ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں کہ پارٹی کس طرح رویہ اختیار کرے؟ یہ موقع پرست قسم کا اصول ہے۔ ٹھاکرے ہندوتوا کو لے کر تب باؤلے ہو گئے تھے جب انھوں نے مسلموں کی حمایت کے ساتھ ہندوؤں کی ناراضگی محسوس کی تھی لیکن جب انھوں نے پایا کہ بمبئی فساد میں اپنی پارٹی کے کچھ لوگوں کی شراکت داری کے باوجود ان کی پارٹی کو مسلمانوں نے ووٹ دیا، تو انھوں نے ایودھیا میں مندر کی جگہ اسکول یا اسپتال بنانے کا مطالبہ کیا۔ 2002 گجرات فسادات کے بعد بی جے پی کے ساتھ رشتوں کی وجہ سے جب مسلمانوں نے ان کی پارٹی کو ووٹ دینا بند کر دیا تو بی جے پی کے ساتھ رشتہ نہ توڑ پانے کے بعد انھوں نے جو سب سے سہولت والا کام کیا تھا (انھوں نے بی جے پی کی بات نہیں سنی اور صدارتی انتخابات میں دو بار)، وہ 2007 (پرتبھا پاٹل) اور 2012 (پرنب مکھرجی) میں کانگریس امیدواروں کی حمایت کرنے سے متعلق تھا۔
اورنگ آباد کو سنبھاجی نگر اور عثمان آباد کو دھاراشیو بنا کر ادھو نے اپنے آپ کو ہندو مخالف بتائے جانے کے موقع کو چھین لیا ہے۔ یہ ان کی کابینہ کا آخری فیصلہ تھا۔ اس میں کانگریس اور این سی پی نے بھی ان کا ساتھ دیا جو سبھی غیر بی جے پی پارٹیوں کے درمیان اس بڑھتے جذبہ کا اظہار ہے کہ انھیں بی جے پی کے ہندوتوا کی مخالفت اور مسلموں کی حمایت کے الزامات کی کاٹ کرنی چاہیے۔ حکومت سے باہر بھی ادھو کے پاس بیشتر شیوسینکوں کی حمایت ہے اور پارٹی کی آئین میں جس طرح شیوسینا چیف جو ادھو ٹھاکرے ابھی ہیں، کو جس طرح کی مکمل طاقت ملی ہوئی ہے، اس کا امکان کم ہی ہے کہ ایکناتھ کو پارٹی پر پوری طرح قبضہ کرنے اور ٹھاکرے سے اس کی روح چھیننے کا موقع مل سکے گا۔
بیشتر شیوسینک جانتے ہیں کہ بی جے پی کا گیم پلان شیوسینا کو پوری طرح برباد اور ختم کر دینے کا ہے اور وہ کسی ایسے شخص کا ساتھ نہیں دیں گے جس نے ایسا کرنے کا راستہ کسی کو دیا ہے۔ باغیوں نے جس طرح اپنے گروپ کو شیوسینا بال ٹھاکرے پارٹی نام دیا، وہی بتاتا ہے کہ ٹھاکرے نام کی شیوسینا کے لیے کتنی قیمت ہے۔ کیونکہ ٹھاکرے کے بغیر شیوسینا نہیں ہے اور اصل شیوسینا کے بغیر ٹھاکرے کی قیمت نہیں ہے۔ راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نونرمان سینا کا حشر ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ لڑائی اب شاخوں میں اور سڑک پر ہوگی۔ اور ادھو ابھی پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔