ہریانہ اسمبلی انتخاب: استعفوں کی آندھی میں تباہ ہوتے بی جے پی کے ’کاسٹ ایکویشن‘… ہرجندر

تھمنے کا نام نہیں لے رہا بغاوت کا سلسلہ، بی جے پی چھوڑنے والوں میں کابینہ وزیر سے لے کر رکن اسمبلی اور دیگر قدآور لیڈران تک شامل۔

<div class="paragraphs"><p>نائب سنگھ سینی / آئی اے این ایس</p></div>

نائب سنگھ سینی / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ہریانہ بی جے پی میں صرف استعفوں کا دور نہیں چل رہا بلکہ بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ گزشتہ اتوار کو جب ہریانہ پردیش بی جے پی نائب صدر جی ایل شرما نے استعفیٰ دیا تو ان کے ساتھ ہی 250 سے زائد مختلف سطحوں کے عہدیدار بھی کانگریس میں شامل ہو گئے۔ وہ لگاتار پانچواں دن تھا جب پارٹی سے بڑی تعداد میں استعفے دیے گئے۔

بی جے پی نے 4 ستمبر کو اسمبلی انتخاب کے لیے 67 امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی تھی۔ اس کے بعد سے شروع ہوئی بغاوت تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ استعفیٰ دینے والوں میں موجودہ کابینہ وزیر سے لے کر موجودہ رکن اسمبلی اور ریاستی و ضلع سطح کے قدآور لیڈران تک شامل ہیں۔ لیڈروں کا بی جے پی چھوڑنے اور دھمکی دینے کا سلسلہ بہت پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ صرف قیادت اور اس کے فیصلوں کو لے کر عدم اطمینان ہی نہیں ہے، بلکہ عام نظریہ ہے کہ بی جے پی اس بار کا انتخاب بری طرح ہارنے جا رہی ہے۔

ہریانہ کے سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ بی جے پی نے 10 سال پہلے سوشل انجینئرنگ کے نام پر جس سماجی فارمولہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی، اس کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔ اس ریاست کی پوری تاریخ میں بی جے پی کبھی بڑی سیاسی طاقت نہیں رہی۔ 1967 میں ہوئے پہلے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی سابقہ بھارتیہ جَن سنگھ کو 81 میں سے 12 سیٹیں ملی تھیں۔ بعد میں جیسے جیسے کسان طبقات کی طاقت بڑھی، بی جے پی کی طاقت لگاتار گھٹتی گئی۔ کچھ ان استثنائیت کو چھوڑ دیں جہاں بی جے پی نے اپوزیشن اتحاد کے نام پر گٹھ جوڑ کیا تھا، ورنہ اس کی جیت کا نمبر ’سنگل ڈیجٹ‘ تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔

اس میں تبدیلی 2014 میں ہوئی۔ وہ وقت جسے کچھ لوگ ’مودی لہر‘ بھی کہتے ہیں۔ ہریانہ میں ریاستی سطح پر اس کے لیے جس طرح کا گٹھ جوڑ تیار کیا گیا، اسے جاٹ مخالف فارمولہ کہا جاتا ہے۔ کچھ مہینے پہلے ہوئے لوک سبھا انتخاب کے دوران ہریانہ کے ایک یوٹیوبر صحافی نے اس کی اچھی تشریح کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف باقی سماج کے لوگوں کے سیاسی پولرائزیشن کی کوشش کرتی ہے۔ ہریانہ میں نوح ضلع کو چھوڑ دیں تو باقی ریاست میں مسلم آبادی نہ کے برابر ہے۔ اس لیے بی جے پی نے جاٹ آبادی کو ہدف بنایا اور ان کے خلاف سیاسی پولرائزیشن شروع کی۔


بی جے پی سوچ تھی کہ بنیا، پنجابی اور پسماندہ ذاتوں کو ساتھ جوڑ کر پارٹی آسانی سے اکثریت حاصل کر لے گی۔ حالانکہ ہریانہ جیسے کئی سطحوں پر جڑے سماج میں اس طرح کا گٹھ جوڑ شاید ایک حد سے زیادہ ممکن بھی نہیں تھا۔ ریاست میں دلت اور پسماندوں کی بیشتر آبادی روایتی طور پر کانگریس سے جڑی رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے دَل بدل اور کچھ دوسرے طریقوں سے اس میں سیندھ لگانے کی کوشش کی اور 2014 میں اس میں کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی۔ جیسے جنوبی ہریانہ میں راؤ اندرجیت سنگھ کو پارٹی میں لا کر اہیر ووٹرس کو اپنے حق میں لانے کی کوشش کی۔

اس سب کے باوجود اس اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو جب اکثریت سے صرف ایک سیٹ زیادہ ملی، تو یہ بھی صاف ہو گیا کہ اس طرح کے گٹھ جوڑ کی حدیں ہیں۔ اس انتخاب میں صرف یہ گٹھ جوڑ ہی کام نہیں کر رہا تھا، ایک طرف کانگریس کے لگاتار دس سال کی حکومت کے بعد اسے کچھ حد تک اقتدار مخالف لہر کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا، دوسری طرف سب سے بڑے مخالف لیڈر اوم پرکاش چوٹالہ بھرتی گھوٹالہ کی وجہ سے جیل میں تھے۔ بی جے پی کو اس سب کا فائدہ بھی ملا۔

2019 کے اسمبلی انتخاب میں اس گٹھ جوڑ نے کام نہیں کیا۔ اس وقت تک اوم پرکاش چوٹالہ کے پوتے دُشینت چوٹالہ اپنے دادا کی کھسکی ہوئی زمین پھر سے حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ انھوں نے جَن نایک جنتا پارٹی کھڑی کر لی تھی۔ اس سے بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہو گیا اور کسی کو اکثریت نہیں ملی۔ تب بی جے پی نے آپریشن کمل کے سہارے اور دُشینت کو نائب وزیر اعلیٰ کا درجہ دے کر کسی طرح حکومت بنا لی۔

اس کے اگلے پانچ سال ہریانہ کے لیے بہت بدقسمتی والے رہے۔ اسی دوران کووڈ وبا کا قہر برپا ہوا اور کسان تحریک بھی۔ بی جے پی اور خاص طور سے ہریانہ حکومت نے جس طرح کسان تحریک کی مخالفت کی اور دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں کے لیے پریشانیاں کھڑی کیں، اس نے جاٹ ہی نہیں تقریباً سبھی کسان ذاتوں کو دشمن بنا لیا۔ ناراض کسانوں نے طویل وقت تک وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو اجلاس تک نہیں کرنے دیا۔ بی جے پی لیڈروں کو بھی گاؤں میں گھسنے تک نہیں دیا جاتا تھا۔


ساڑھے چار سال بعد عین لوک سبھا انتخاب کے وقت جب بی جے پی کو لگا کہ پانی سر سے گزرنے لگا ہے، تب بدلاؤ کی سوچی۔ کھٹر کو ہٹا کر نائب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف دلایا گیا۔ سوچ تھا کہ اس سے کھٹر کے خلاف لوگوں کی ناراضگی سے بچا جا سکے گا، دوسرے پسماندہ کارڈ کھیلا جا سکے گا۔ حالانکہ ریاست کی آبادی میں سینی صرف تین فیصد ہی ہیں۔ لیکن نتائج نے بتایا کہ یہ کارڈ چلا نہیں۔

ہریانہ میں بی جے پی کے خلاف سطح پر اتنا عدم اطمینان دکھائی دے رہا ہے کہ ایسی ترکیبوں کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ پانی پت، سونی پت، کرنال، انبالہ جیسے جی ٹی روڈ بیلٹ کے شہروں سے آنے والی رپورٹ بتا رہی ہے کہ شہری علاقوں، پنجابی اور ویشیہ طبقات میں بھی بی جے پی کو پہلے جیسی حمایت نہیں مل رہی ہے۔ ’کاسٹ ایکویشن‘ یعنی ذات پات پر مبنی فارمولہ کی بنیاد پر کھڑی بی جے پی کی سیاست ڈگمگا چکی ہے۔

(یہ مضمون ہرجندر نے ’سنڈے نوجیون‘ کے لیے لکھا تجا جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔