بی جے پی پھر نماز اور قبرستان کی پناہ میں... نواب علی اختر
دہرادون میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں نماز جمعہ کے سلسلے میں جس طرح کا بیان دیا ہے، وہ انہیں قطعی زیب نہیں دیتا۔
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں ملک و حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوسکتا۔ عوام کا اپنا مذہب ہے اور دستور ہند میں ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ حکومتوں کا کام عوام کے لیے مندروں کو سجانا یا انہیں فروغ دینا نہیں ہے۔ سرکاری رقومات کا بیجا استعمال کرنے کا حکومتوں کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہی آدتیہ ناتھ حکومت ہے جس نے کورونا بحران کے دوران عوام کو خاطرخواہ راحت نہیں پہنچائی اور نہ ہی کوئی مالی مدد کی۔ اب یہی حکومت عوامی رقومات مندروں پر خرچ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے عوام کو مذہب کے نام پر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے ذریعہ ماحول کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ ایسی کوششوں کے خلاف چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کرکٹ کے نام پر فرقہ واریت کا ’کھیل‘... نواب علی اختر
2014 سے پہلے تک جب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے لیے ہندو اور مسلمان اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ایک دوسرے کی شادی اور جنازے میں شرکت کرکے اتحاد اور بھائی چارے کا پیغام دیتے تھے مگر اس کے بعد جس طرح سے اچانک مذہب کے کچھ نام نہاد ٹھیکیدار پیدا ہوئے اور انہوں نے ہمارے بزرگوں کی سالوں کی محنت کو خاک وخون میں غلطاں کرنے کی ٹھان لی، اس سے ہندوستان کا وقار اور تاریخی شناخت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اگر ایسا ہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب ملک کی دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے کی دشمن ہوجائیں گی اور پھر کسی بھی شخص کا (ہندو ہو یا مسلمان) پرامن اور سکون کی زندگی گزارنا محال ہوجائے گا۔ لہٰذا ایسے وقت جب ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، ان بے وقوفوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے۔
حالیہ کچھ سالوں میں یہی دیکھا گیا ہے کہ انتہا پسندی کی بھٹی سے نکلے کچھ لوگ بھگوا چولا پہن کر خود کو سب سے بڑا ’ہندو سمراٹ‘ ثابت کرنے کے لیے دوسرے مذاہب کی توہین کرتے اوراس کے پیروکاروں کو گالیاں بکتے نظر آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پڑھے لکھے جاہلوں کو یہ نہیں معلوم کہ ہر مذہب میں کسی دوسرے کی توہین کی ممانعت ہے، پھر بھی وہ ایسا کریں گے کیونکہ ان کے لیے مذہب سے زیادہ کرسی پیاری ہے اور اسی کرسی کے لیے وہ عوام تو کیا ملک کی بھی توہین کرنے میں عار نہیں محسوس کریں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب اچانک شروع ہوا ہے، یہ تو بہت پہلے سے ہو رہا ہے مگر کھلے طور پر اب ہو رہا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کی نظر میں حکومت اپنی ہے تو یہ لوگ ہندوستان کے نظام اور قانون کو بھی اپنی جاگیر سمجھنے لگے ہیں۔
فرقہ پرستوں کی انہیں حرکتوں کی وجہ سے آج امن پسند لوگ دہشت میں ہیں، یکے بعد دیگرے واقعات نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں ہر شخص ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہے۔ آئندہ سال کے اوائل میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر فرقہ وارانہ جنون انتہاء کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے بھی ہر انتخابی موسم میں یہی صورتحال ہوتی ہے تاہم اس بار صورتحال اور بھی سنگین ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کوئی گوشہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جو فرقہ وارانہ جنون کا شکار نہیں ہوا ہو یا نہیں کیا گیا ہو۔ خاص طور پر نوجوانوں کے ذہنوں کو زر خرید میڈیا اور روپوش جنونیوں نے اس حد تک پراگندہ کر دیا ہے کہ وہ ہر مسئلہ کو فرقہ واریت کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
سیاست کے اس حمام میں سبھی ننگے نظر آرہے ہیں، جسے جب ضرورت ہوتی ہے وہ انتہا پسندوں کو اشارے کر کے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے موقع پر خود وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریرمیں قبرستان اور شمشان کا تذکرہ کیا تھا۔ عید اور دیوالی کا حوالہ دیا تھا اور مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔ اب جبکہ اترپردیش میں انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں ایک بار پھر سے ماحول کو اسی نہج پر لے جانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اس بار ان کوششوں کا ذمہ فی الحال خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھال لیا ہے۔ انتخابات سے عین قبل ماحول کو پراگندہ کرنے کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ اترپردیش میں پہلے سرکاری رقومات قبرستانوں پر خرچ کی جاتی تھیں اور اب یہی رقومات مندروں پر خرچ کی جا رہی ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی ریاست کے اعلیٰ عہدے پر براجمان شخص کا یہ بیان انتہائی مذموم کہا جاسکتا ہے اور ایسے بیانات کی ہندوستانی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ جو لوگ ملک کے اہم اور دستوری و قانونی عہدوں پر فائز ہیں انہیں تو کم از کم اس طرح کی بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے اور ان عہدوں کے وقار کو مجروح کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے لیکن بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ ہوں یا دیگر ذمہ دار وزراء وہ صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے اخلاقیات و اصولیات کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں امت شاہ (وزیر داخلہ) کا بھی نام شامل ہے جنہوں نے حال ہی نماز جمعہ کے تعلق سے بیان دے کر انتہا پسندوں کو بلیوں اچھلنے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ ویسے بھی ہمیشہ سے ہندو مسلم نفرت کو فروغ دینے میں یقین رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی ہی ان کی واحد شناخت ہے۔ ایسے میں ان کی جانب سے اس طرح کا بیان دیا جانا نئی بات نہیں ہے لیکن اس بار سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس طرح کا بیان دیا ہے۔ کیونکہ عوام کی ناراضگی اب کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ خاص طور پر حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے عوامی موڈ کو ظاہر کر دیا ہے۔ کئی ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں اپوزیشن جماعتوں کو کامیابی ملی ہے اور بی جے پی امیدواروں کو عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی نے ایک بار پھر سے فرقہ پرستی کا سہارا لینے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیجریوال: ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘… ظفر آغا
اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرادون میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں نماز جمعہ کے سلسلے میں جو بیان دیا ہے، انہیں قطعی زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے ایک عوامی جلسے کے دوران ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ کانگریس کے دور میں مسلمانوں کی اتنی منہ بھرائی ہوتی تھی کہ جمعہ کے دن ہائی وے کا ٹریفک روک کرکے انہیں سڑک پر نماز پڑنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار میں اتراکھنڈ آیا تو ٹریفک جام میں میرا قافلہ پھنس گیا جب میں نے وجہ معلوم کی تو مجھے بتایا گیا کہ لوگ ہائی وے پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ جس کے کندھوں پر ملک کی سلامتی اور امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری ہے وہ شخص ایسا بیان دے کر کیا پیغام دینا چاہ رہا ہے، یہ سمجھنا بڑا آسان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔