گجرات: 2.5 مہینے میں بی جے پی کے ہاتھ سے 53 سیٹیں نکل گئیں!
محض 2.5 مہینے میں بی جے پی کو 53 سیٹوں اور 16 فیصد ووٹوں کا نقصان ہو گیا ہے۔ جبکہ کانگریس کو 53 سیٹوں اور 14 فیصد ووٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پاٹیدار اور کاروباری طبقہ بھی بی جے پی سے ناراض ہے۔
گجرات اسمبلی انتخابات پراے بی پی نیوز کے لئے سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کے اکتوبر میں کئے گئے اوپین پول کی آخری قسط سے یہ صاف ہو گیا ہےکہ گجرات میں بی جے پی کی زمین کھسک چکی ہے اور عوام بے حد ناراض ہیں۔
سی ڈی ایس-لوک نیتی نے اس سلسلہ کا پہلا سروے اگست 2017 میں کیا تھا جس میں سامنے آیا تھا کہ بی جے پی کو کانگریس کے مقابلہ کافی سبقت حاصل ہے۔ سروے میں بتایا گیا تھا کہ بی جے پی کے کھاتے میں 59 فیصد ووٹ جانے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ جبکہ کانگریس کے حصہ میں محض 29 فیصد ووٹ ملنے کے آثار بتائے گئے تھے، بقیہ 12 فیصد ووٹ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کے کھاتے میں جائیں گے۔
اس ووٹ شیئر کی بنیاد پراے بی پی نیوز نے بتایا کہ گجرات میں بی جے پی کو 144 سے 152 تک سیٹیں مل سکتی ہیں۔ یعنی اس کے کھاتے میں کم و بیش 148 سیٹیں جانے کا امکان ہے۔ اسی ووٹ شیئر کی بنیاد پر کانگریس کے حصے میں محض 26 سے 32 سیٹیں جانے کا امکان تھا۔ یعنی اے بی نیوز نے کانگریس کو صرف 29 سیٹوں کی پیشگوئی کی تھی۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی سروے میں صرف ووٹ شیئر کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور اس ووٹ شیئر کی بنیاد پر سیٹوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ سی ایس ڈی ایس کی یہ روایت بہت پرانی ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔
سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کے سروے کا دوسرا مرحلہ اکتوبر 2017 کے آخری ہفتہ میں منظر عام پر آیا۔ اس سروے میں بی جے پی کا ووٹ شیئر گر کر 47 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ یہ اگست کے امکان کے مقابلہ میں 12 فیصد کم تھا۔ وہیں کانگریس کے کھاتے میں 12 فیصد بڑھت کے ساتھ 41 فیصد ووٹ جانے کی بات کہی گئی۔ اکتوبر کے اس ووٹ شیئر کی بنیاد پر اے بی پی نیوز نے پیشگوئی کی تھی کہ گجرات میں بی جے پی کو 113 سے 121 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ یعنی اس کے کھاتے میں کم و بیش 117 سیٹیں آنے کا امکان ہے۔ اس سروے کے ووٹ شیئر کی بنیاد پر کانگریس کے حصے میں 58 سے 64 سیٹیوں کا امکان ظاہر کیا گیا تھا یعنی اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد 32 سے بڑھ کر 61 تک پہنچے کا امکان ظاہر کیا گیا۔
سروے کے اس مرحلے میں سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی نے آخری سروے نومبر 2017 کے آخری ہفتہ میں کیا۔ یہ وہ ہفتہ ہے جب پولنگ میں محض ایک ہفتے کا وقت باقی ہے اور زیادہ تر ووٹر اپنا من بنا چکے ہوتے ہیں۔ الیکشن سے عین پہلے کئے گئے اس سروے میں عام طور پر کچھ حد تک صحیح تصویرملتی ہے۔ بہار اور دہلی کے معاملہ میں یہ ثابت ہوا ہے۔
نومبر 2017 کےآخری ہفتہ کے سروے کے نتائج میں سامنے آیا کہ کانگریس نے بڑے پیمانے پر بی جے پی کو جھٹکہ دیا ہے۔ گجرات کے چار علاقوں میں سے تین علاقے کانگریس کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں اور اس کا ووٹ شیئر بڑھ کر 43 فیصد پہنچ گیا ہے جبکہ بی جے پی کو مزید 4 فیصد کا نقصان ہونے کاامکان ظاہر کیا ہے۔ یعنی نومبر کے آخری ہفتہ میں کانگریس اور بی جے پی کو برابری کے ووٹ شیئر کے ساتھ آمنے– سامنے ہیں۔
چینلوں نے برابرکا ووٹ شیئر اور گجرات کے مؤثر طبقے کی حمیات کانگریس کو ملنے کے امکان ظاہر کرنے کے باوجو د بی جے پی کو زیادہ سیٹیں ملنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ جو بھی حساب لگایا ہے اس کی بنیاد پر بی جے پی کے لئے 91 سے 99 سیٹیں اور کانگریس کو 78-86 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ یعنی بی جے پی کے حصہ میں کم و بیش 95 اور کانگریس کے کھاتے میں 82 سیٹیں جا سکتی ہیں۔
چینل کے امکان کو صحیح مانیں تو گزشتہ تین مہینوں میں بی جے پی کو گجرات میں 53 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے جبکہ کانگریس کو 53 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔
سی ڈی ایس لوک نیتی کے سروے کا ایک اور آنکڑا دلچسپ ہے۔ اس کے مطابق جن لوگوں سے سروے کے دوران بات کی گئی ان میں سے 70 فیصد سے زیادہ کا کہنا ہے کہ وہ پولنگ کے دن اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جس کے بارے میں انہوں نے سروے کرنے والے کو بتایا ہے۔
اسی سروے کے مطابق گجرات کے مؤثر طبقات میں چامل پاٹیدار، دلت اور کاروباری کھل کر کانگریس کے ساتھ ہیں۔ علاوہ ازیں کسان اور قبائلی بھی کانگریس کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ساتھ ہی خواتین کی پہلی پسند بھی کانگریس ہی ہے۔
سروے کے مطابق اگست میں بی جے پی کی روپانی حکومت سے مطمین ہونے والوں کی تعداد 69 فیصد تھی جو کہ نومبر کے آخر تک 53 فیصد رہ گئی۔ وہیں مرکز کی نریندر مودی حکومت سے مطمین ہونے والوں کی تعداد بھی ایک تہائی کم ہو گئی ہے اور ان کی تعادا 67 فیصد سے گر کر 47 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی آدھے سے زیادہ گجرات نریندر مودی کی مرکزی حکومت سے مطمین نہیں ہے۔
ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ گجرات کے 60 فیصد لوگ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ نریندر مودی نے اچھے دنوں کا جھوٹا وعدہ کیا تھا اور ایسا کرنے والوں کی تعداد میں اگست کے مقابلے 11 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں نصف سے زیادہ گجراتی یعنی 56 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں ان کی آمدنی گھر کا خرچ چلانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے حوالے سےبھی گجرات کے لوگ مرکز کی مودی حکومت اور وجے روپانی حکومت سے ناراض ہیں۔
پرانی کہاوت ہے کہ سیاست تصورات کا کھیل ہے یعنی جس کی ہوا زیادہ چلتی ہے عام طور پر اس کے حق میں ماحول مثبت ہو جاتا ہے۔ سروے میں یہ سوال بھی پوچھا گیا تھا کہ کس کی ہوا ہے اور کون جیت سکتا ہے۔ اس کے جواب میں کانگریس اور بی جے پی برابری پر ہیں۔ 37 فیصد گجرات کا ماننا ہے کہ اس بار کانگریس کی ہوا ہے جبکہ تقریباً اتنے ہی لوگ بی جے پی کی بات کرتے ہیں۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Dec 2017, 8:32 PM