مہاراشٹر میں بی جے پی کے لیڈران کا بگڑتا ذہنی توازن… اعظم شہاب

متواتر ہزیمتوں سے باہر نکلنے کے لیے بی جے پی کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ اب اس بات کو تسلیم کرلے کہ مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی حکومت اس کی توقع کے برخلاف کافی مضبوط ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

جھنجھلاہٹ وغصہ بسا اوقات ذہنی توازن کے بگڑنے کا بھی سبب بن جاتا ہے جس کا بھرپور مظاہرہ آج کل مہاراشٹر بی جے پی کے خیمے میں ہو رہا ہے۔ ریاستی گورنر سے لے کر ریاستی صدر تک اور سابق وزراء سے لے کر موجودہ ممبران اسمبلی تک ہر کوئی زبانِ حال سے کسی دماغی امراض کے معالج کی ضرورت کا اعلان فرما رہے ہیں، مگر مرض ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یوں تو اس مرض کی شروعات اقتدار سے محرومی کے بعد سے ہی ہوگئی تھی، مگر فلم اداکارسوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے غم نے اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ سی بی آئی کی لاکھ کوششوں کے باوجود خودکشی کا یہ معاملہ قتل میں تبدیل نہیں ہوسکا، وگرنہ ایمس کے دماغی شعبے کی ضرورت دہلی سے زیادہ ممبئی میں محسوس ہوگئی ہوتی۔ مگر اس کا کیا جائے کہ ریاستی بی جے پی لیڈران کے ذہنی توازن کی یہ گڑبڑی پوری بی جے پی کو ہزیمت کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہی ہے، جس کی دو تازہ مثالوں کا ہم یہاں تذکرہ کیے دیتے ہیں۔

پہلی مثال ممبئی کے کاندیولی علاقے سے بی جے پی کے ایم ایل اے اتل بھاتکھلکر کا یہ مطالبہ ہے کہ ریاست میں مدارس کو بند کردیا جائے۔ گوکہ اسے حکومتی امداد کے بند کرنے کا مطالبہ قرار دیا گیا ہے، مگر درحقیقت ان کا مطالبہ سرے سے مدارس کو ہی بند کرنے کا تھا۔ 15 اکتوبر کو بھاتکھلکر نے وزیراعلی کو ایک مکتوب لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوتوا ثابت کرنے کے لیے کسی کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں کہنے والے وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے ریاست کے تمام مدارس کو بند کرنے کی ہمت دکھائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ وزیراعلیٰ سے کیا گیا تھا مگر وزیراعلیٰ سے قبل اسے میڈیا تک پہنچا دیا گیا، جس سے اس کا مقصد واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن اب اسے بھاتکھلکر کے ذہنی توازن کی خرابی کہیں یا کچھ اور کہ انہوں نے اپنی پارٹی کی روایت پر بھی غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس سے قبل ریاست میں انہیں کے پارٹی کی حکومت تھی، جس نے ان مدارس کے گرانٹ میں فخریہ اضافے کا اعلان کیا تھا اور وزیراعلیٰ دیوندر فڑنویس نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر سابقہ حکومت (کانگریس این سی پی کی حکومت) پانچ روپئے خرچ کیے ہوں گے تو ہم دس روپئے خرچ کریں گے۔ وزیراعلیٰ کے اس بات کے گواہ ممبئی کے کچھ مسلم زعماء بھی ہیں، جنہوں نے اقلیتی مسائل کے حل کے نام پر اس وقت کے وزیراعلیٰ فڑنویس سے ملاقات کی شرف حاصل کی تھی، اور ملاقات کے بعد ہفتے بھر تک مخمور نظر آتے رہے۔


تل بھاتکھلکر اپنے مطالبے سے قبل زیادہ کچھ نہیں صرف بی جے پی کے سینئر لیڈران کے موقف ہی کی جانچ کرلیے ہوتے تو وہ یہ بیوقوفانہ مطالبہ ہرگز نہیں کرتے۔ یا کرتے بھی تو کم ازکم اپنے ذاتی حیثیت سے کرتے۔ اٹل بہاری واجپئی کے دورِ حکومت میں 20 اگست2001 کو اس وقت کے وزیر انسانی فلاح وبہبود مرلی منوہر جوشی نے یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت کا مدرسوں کے کام کاج میں کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے کا کوئی ارداہ نہیں ہے نیز مدرسوں کو جدید بناتے ہوئے ان میں مذہبی تعلیم کے ساتھ سائنس، ریاضی وسوشل وجنرل سائنس جیسے موضوعات کی بھی تعلیم دی جانی چاہیے۔ فروری 2002 میں مرلی منوہر جوشی نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ مرکزی حکومت تقریباً ایک ہزار مدرسوں کو امداد فراہم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ آج کے وزیراعظم نریندرمودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے 2012 کے انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی منشور میں مدرسوں کے ماڈرنائزیشن کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اسی کے ساتھ 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں بھی بی جے پی کے انتخابی منشور میں مدرسوں کے ماڈرنائزیشن کا دوبار تذکرہ کیا گیا تھا۔ 11جون 2019 کو مرکزی اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے مدرسوں کے ماڈرنائزیشن کے لیے اقدامات کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مدرسوں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کو دیگر اداروں کی جانب سے ہندی، انگریزی، ریاضی، سائنس وکمپیوٹر کی تربیت دے کر مدرسوں کے طلبہ کو ان کا فائدہ پہنچانے کے لیے اسکیم بنائی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نریندرمودی نے مسلم نوجوانوں کے لیے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر کا ویژن پیش کیا تھا۔ اس ویژن کے حصول کے لیے مدرسوں کو بائی پاس ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ مدرسوں کے بارے میں بی جے پی لیڈران کے اس موقف کے بعد اگر اتل بھاتکھلکر کے مطالبے پر غور کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ان کے اس مطالبے کو ان کے ذہنی توازن کے بگڑنے سے ہی تعبیر کریں گے۔

دوسرا معاملہ مہاراشٹر میں کانگریس، این سی پی و شیوسینا کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو برخاست کرکے صدر راج نافذ کرنے کے مطالبے سے ہے۔ یہ مطالبہ سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کرکے کیا گیا تھا جس کو سپریم کورٹ نے نہ صرف خارج کردیا بلکہ پی آئی ایل داخل کرنے والوں کو پھٹکار بھی لگائی۔ اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ مہاراشٹر کے لیے کیا جا رہا تھا اور مطالبہ کر رہے تھے دہلی کے لوگ، یعنی کہ مارو گھٹنے پر اور پھوٹے آنکھ، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ اس میں مہاراشٹر بی جے پی کی شمولیت یا مرکزی حکومت کی رضامندی شامل نہیں رہی ہوگی۔ ہواں یوں کہ سوشانت سنگھ معاملے میں جب فلم انڈسٹری کی کنگنا راناوت نام کی لکشمی بائی جنہیں بی جے پی کے لوگ جھانسی کی رانی کہنے لگے تھے، میدان میں اتریں اور ممبئی کو پی او کے قرار دیدیا تو بی جے پی کے لیڈران یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب ایک بار پھر بازی ان کے ہاتھ آگئی ہے۔ اس غبارے میں مزید ہوا بھرتے ہوئے انہیں راتوں رات وائی درجے کی سیکوریٹی تک فراہم کردی گئی۔ مگر یہ داؤ بھی جب ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا تو مرتا کیا نہ کرتا، سپریم کورٹ کا رخ کیا گیا اور حکومت کو برخاست کرنے کی پی آئی ایل داخل کردی گئی۔


سپریم کورٹ نے صدر راج نافذ کرنے کی پی آئی ایل کو خارج کرتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں وہ بی جے پی کے لیڈران کی بوکھلاہٹ اور اس کے ردعمل پر مہر لگانے کے لیے کافی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا تھا کہ کیا صرف ممبئی کے ایک دو واقعات کا اطلاق پورے مہاراشٹر پر کیا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے پی آئی ایل داخل کرنے والوں سے یہ سوال بھی کرلیا کہ مہاراشٹر کتنی بڑی ریاست ہے، کیا انہیں معلوم بھی ہے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اس پی آئی ایل پر سماعت وہی چیف جسٹس صاحب کر رہے تھے جن کے نام پر بی جے پی والے عدالتوں پر اپنا کاپی رائٹ سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن شاید پی آئی ایل داخل کرنے والے یہ بات فراموش کرگئے تھے کہ جس طرح ملک کے عوام جذباتی باتوں کے بجائے بنیادی مسائل پر غور کرنے لگے ہیں، اسی طرح عدالت بھی ہر الم غلم پی آئی ایل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ نتیجہ وہی ہوا جس کی توقع تھی کہ چیف جسٹس بوبڑے نے اس پی آئی ایل کو ہی خارج کر دیا۔ اب بی جے پی کے لیڈران اپنا زخم سہلا رہے ہیں۔ ان متواتر ہزیمتوں سے باہر نکلنے کے لیے بی جے پی کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ اب اس بات کو تسلیم کرلیں کہ مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی حکومت اس کی توقع کے برخلاف کافی مضبوط ہے۔ اسے غیرمستحکم کرنے کی کوشش میں اس کے لیڈران کا ذہنی توازن مزید بگڑ تو سکتا ہے، مگر حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔