گجرات میں بی جے پی کی کھسکتی زمین، کسانوں میں زبردست غصہ

احمدآباد سے راجکوٹ کے اپنے سفر کے دوران ہم نے جتنے بھی لوگوں سے بات کی انہوں نے یہی کہا کہ وہ اس بار کے انتخابا ت میں بی جے پی حکومت کو ہٹا نے کے لئے ووٹ دیں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نچیکیتا دیسائی

میں اور ایک صحافی دوست نے ساند، ویراگام، دھنگدھرا، ہالواڑ اور موربی ہوتے ہوئے احمد آباد سے راجکوٹ تک کا سفر کیا۔ سفر کے دوران ہم نے سڑک کنارے چائے کی دکانوں پر رک کر لوگوں سے باتیں کیں ،جن میں زیادہ تر نوجوان، کسان اور کاریگر تھے۔ ہم چوٹیلا، لمڈی اور چنگودر ہوتے ہوئے واپس احمد آباد لوٹے ۔

ہم نے جتنے بھی لوگوں سے بات کی انہوں نے کہا کہ وہ بی جے پی حکومت کو اقتدار سے بےدخل کرنا چاہتے ہیں ۔ بیساکھی کے سہارے چلنے والے ایک بڑھئی (کارپینٹر)نے ہم سے اس رہائشی کالونی کو دیکھنے کی التجا کی جہاں اس کو یہ فلیٹ 7 سال قبل اس وقت کی وزیر برائے ریونیو ، سڑک اور عمارت آنندی بین پٹیل جو بعد میں ریاست کی وزیر اعلی بنیں نے الاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لئے اس نے ڈاؤن پیمنٹ کے طور پر 1250 روپے کی ادائیگی بھی کر دی تھی لیکن اسے آج تک کچھ بھی نہیں ملا۔

دھرنگدھرا شہر کے صدر مقام سے بمشکل 2 کلومیٹر دور واقع اس رہائشی کالونی کا افتتاح آنندی بین پٹیل 26 جنوری 2010 کو کیا تھا اور جب سے ہی یہ خالی پڑی ہے ۔ اس کالونی میں 700 فلیٹ ہیں جن میں کوئی نہیں رہتا۔ احاطے میں موٹی گھنی جنگلی جھاڑیاں اور چھوٹے پودے اگ آئے ہیں اور دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ یہاں تک کہ آنندی بین اور ایک دیگر وزیر آئی کے جڈیجا کے نام کی تختی بھی جنگلی اور موٹی جھاڑیوں سے ڈھک گئی ہے۔

ہم نے دریافت کیا کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی آتے ہیں اور گھر کا قبضہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں تو کیا کہیں گے آپ؟ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی دوہری مار سے تباہ ہو چکے فرنیچر کی دکان میں کام کرنے والے جسمانی طور پر معزور اس بڑھئی نے کہا کہ آکر وعدہ بھی کریں گے اور واپس بھی چلے جائیں گے لیکن کچھ نہیں ہوگا۔

ایک چائے بیچنے والے نے کہا ’’ میں نے 2012 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا کیوں کہ مودی نے ہمیں سب کی ترقی کی امید دکھائی تھی۔پولس اہلکار مستقل طور پر چائے پینے اور بسکٹ کھانے کے لئے میری دکان پر آتے ہیں اور کبھی پیسہ نہیں دیتے ہمیشہ مفت پیتے ہیں ۔‘‘ چائے والا ’راباڑی ‘ طبقہ سے تعلق رکھتا ہے جو ایک دیہاتی طبقہ ہے اور جن کا اہم پیشہ گائے اور بھینس پالنا ہے۔

سندر نگر کپاس کی کھیتی کے لئے جانا جاتا ہے۔ ہالاواڑ کے ایک گاؤں کے داخلہ گیٹ پر ایک چھوٹی ٹھیلا گاڑی کے ارد گرد جمع لوگوں کی بھیڑ کو دیکھ کر ہم رک گئے۔ گاؤں کی آبادی تقریباً 5 ہزار ہے۔ وہاں کا سرپنچ بی جے پی کا حامی ہے۔

دو انجان لوگوں کو ایک کار سے اترتے دیکھ ٹھیلے کے پاس جمع لوگوں نے ہم پر تجسس بھری نگاہ ڈالی ۔ ہم نے بتایا کہ ہم دہلی اور احمد آباد سے آئے ہوئے صحافی ہیں ۔ بھیڑ میں سے کچھ لوگوں نے دہلی کے صحافی کا چہرہ پہچان لیا کیوں کہ وہ اکثر ٹی وی کے مباحثوں میں نظر آتے ہیں۔ ٹھیلا گاڑی ایک چادر فروش کی تھی جو گاؤں گاؤں پھیری لگاتا ہے۔ ہماری آمد سے اس کی دکان داری میں خلل پیدا ہو گیا ۔

ایک کسان نے ہمیں بتایا ’’ ہم نے کبھی ایسی غریبی نہیں دیکھی۔ شادیوں کا موسم آ گیا ہے اور ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے۔ کپاس کا ہمارہ زخیرہ فروخت نہ ہو پانے کی وجہ سے بیکار پڑا ہوا ہے۔ حکومت سے 804 روپے سے لے کر 854 روپے فی 20 کلو گرام کم از کم سپورٹ قیمت (ایم ایس پی ) حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایک لمبی قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے گاؤں سے قطار میں 2200 سے زیادہ کسان پہلے سے لگے ہیں۔ قطار میں ہر دن صرف 25 کسان ہی مال فروخت کر پاتے ہیں ۔ اس رفتار سے ہماری باری 3 مہینے کے بعد آئے گی۔ اس لئے ہمارے پاس اپنی کپاس پرائیویٹ تاجروں کو 700 روپے فی 20 کلوگرام کے حساب سے فروخت کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ اسی دوران بی جے پی سرپنچ اپنی بائک پر بیٹھ کر وہاں پہچ گئے۔

28 فیصد جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سےموربی کی 5 ہزار کروڑ کی سریمک صنعت ایک مہینے کے لئے ٹھپ ہو گئی تھی۔ گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد جی ایس ٹی کی شرح کو کم کر کے 18 فیصد کر دیا گیا ہے لیکن تاجروں کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کم کی گئی شرح انتخابات کے بعد بھی لاگو رہیں گی یا نہیں۔

ایک سریمک یونٹ کے ایک قائم مقام افسر نے کہا ’’ کون بتا سکتا ہے گجرات انتخابات ختم ہوجانے کے بعد حکومت جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ نہیں کرے گی؟ انتخابات کے نتائج چاہے جو بھی ہوں یہ ’موڈی ‘ حکومت جی ایس ٹی کی شرح کو تبدیل کر کے اس میں اضافہ کر سکتی ہے۔ انتخابات میں جیت ہو یا ہار مرکز کی بی جے پی حکومت 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے ٹھیک پہلے کم کرنے کے لئے جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔ ‘‘

موربی میں 99 فیصد سریمک اکائیاوں کے مالک پاٹیدار ہیں جنہوں نے ایک ایک مینو فیکچرنگ پلانٹ کے قیام کے لئے 50 لاکھ روپے سے لے کر 20 کروڑ روپے تک کی سرمایہ کاری کی ہے ۔ ان اکائیوں میں کام کرنے والے زیادہ تر کاریگر بنیادی طور پر بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ اور دیگر ریاستوں کے رہائشی ہیں۔ ان اکائیوں میں صرف انتظامی ملازمین ہی مقامی ہوتے ہیں۔

موربی شہر کے مضافات میں ایک چائے کی دکان پر ہم دو گجراتی نوجوانوں سے ملے۔ وہ دونوں غیر پاٹیدار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان نے بتایا کہ سریمک صنعت کے علاوہ موربی ضلع مونگ پھلی کی کھیتی کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ کھیتی کرنے والی زمینوں کے زیادہ تر مالکان پاٹیدار ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں میں بی جے پی کارکنان کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔

وہاں پر ایک بھاری مشین کھڑی تھی جس کا آپریٹر امریلی ضلع کا ایک پٹیل نوجوان تھا۔

اس کی بہن کی شادی موربی ضلع کے ایک گاؤں میں ہوئی ہے۔ اس نے کہا ’’ اس بار ہم بی جے پی حکومت کو ہٹانے کے لئے ووٹ دیں گے۔ ہمارے انتخابات سے قبل سروے کے ارادے سے کئے گئے اس دورے میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جس نے بی جے پی کی حمایت کی ہو۔ 2012 میں ہوئے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کے حامی آپ پر ٹوٹ پڑتے اگر آپنے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی تنقید کی ہمت بھی کی ہوتی۔

بلاشبہ بی جے پی سے لوگ ناراض ہیں اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس بار وہ اس کے خلاف ووٹ دیں گے اس کے باوجود حیرت انگیز طریقہ سے ہر کسی کا یہی کہنا ہے ’’ ہر حال میں بی جے پی ہی حکومت بنائے گی چاہے سیدھے طریقہ سے یا پھر الٹے طریقہ سے ۔‘‘

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Nov 2017, 10:14 AM