یومِ پیدائش پر خصوصی پیش کش: پنڈت نہرو کا جمہوریت پر یقین اور ان کی اعتدال پسندی
نہرو، پٹیل اور سبھاش کامریڈ ہی تھے۔ سبھاش بابو نے خود کہا تھا، ’نہرو کی طاقت گاندھی جی سے زیادہ ہے، کیونکہ نہرو کو کمیونزم کی جو حمایت حاصل تھی وہ خود بائیں بازو کے لیڈران کو بھی کبھی نہیں مل سکتی
(راجو پارولکر کا مضمون)
دائیں بازو کے انتہا پسند اور ہندو شدت پسند ناتھورام گوڈسے نے 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کا قتل کر دیا اور پھر پورے ملک کا بوجھ جواہر لال نہرو کے کندھوں پر آ گیا۔ گاندھی کے بعد کے دور میں جب نہرو بلاشبہ ملک کے سب سے قد آور رہنما تھے، ہندوستان کا آئین اس وقت تک تیار نہیں ہوا تھا اور ملک کو پیچیدہ اور سخت مسائل کا سامنا تھا۔
ماضی میں خوشحال رہنے ولالا قدیم ثقافت والا ملک انتہائی غربت اور فاقہ کشی کی حالت میں تھا۔ اس وقت تک ہندوستان جدید مشینی دور سے بہت دور تھا۔ انگریزوں کے ہندوستان آنے سے پہلے یہ سرزمین ثقافت، ذات پات، زبانوں اور ریاستوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ان مسائل کو انگریزوں نے اپنی نصف صدی پر محیط حکومت کے دوران مزید پیچیدہ کر دیا۔ انگریزوں نے اپنے مفادات میں ہندو مسلم تنازعات کو ہوا دینے کے لیے ہندوستانی رجعتی لیڈروں اور استعمار کو استعمال کیا۔
گاندھی جی اب حیات نہیں تھے۔ نہرو کے ساتھی محب وطن تھے لیکن انہیں نہ تو دنیا دیکھنے کا تجربہ تھا اور نہ ہی نہرو جیسی مقبولیت حاصل تھی۔ جب ساری طاقت ان کے پاس مرکوز ہو گئی تو پنڈت نہرو بہت آسانی سے تاناشاہ بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ نہرو پر تین عوامل کا گہرا اثر تھا۔ ایک، نہرو کو قدیم ہندوستانی ثقافت پر بہت فخر تھا۔ یہ ان کی کتاب 'ڈسکوری آف انڈیا' میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت نہرو جس طرح ہندوستان کی قدیم عظمت کو بیان کرتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارکسزم نے دنیا اور نہرو کو کتنا ہی متاثر کیا ہو، نہرو ہندوستان کو مارکسزم کے راستے پر چلنے کی اجازت نہیں دینے والے تھے۔
دو، مہاتما گاندھی کی پیچیدہ شخصیت کا نہرو پر بھی بڑا اثر تھا۔ مہاتما گاندھی ایک طرف تو ماڈرن تھے لیکن دوسری طرف وہ ایک پکے ہندو بھی تھے۔ انہوں نے نہرو اور سبھاس بوس جیسے نوجوان کانگریسی لیڈروں کو اپنے طریقے سے کام کرنے کی آزادی دی۔ گاندھی کی سچائی، وسائل کی پاکیزگی، سچی ہندوستانیت اور سادگی نے نہرو کی زندگی پر دیرپا اثر ڈالا۔ ان میں تکبر اور منافقت کا نام و نشان بھی نہیں تھی۔
تین، جواہر لال نہرو کو متاثر کرنے والا تیسرا عنصر بہت اہم تھا اور وہ ہے سائنسی نقطہ نظر۔ نہرو نے کم عمری میں سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کیمبرج میں فزکس کی تعلیم حاصل کی۔ مارکسزم کے عروج کے بعد نہرو اس کی طرف راغب ہوئے۔ وہ انسانی معاشرے کی ساخت، ابتدا اور ترقی کے بارے میں مارکسزم کی منطقی وضاحت سے بہت متاثر تھے۔
نہرو 1927 میں روس گئے۔ ان کی سیاسی زندگی میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں تھی اور سوویت روس میں صنعتی انقلاب کے ذریعے ملک تیزی سے اقتصادی ترقی کے عمل میں تھا۔ نہرو نے اس وقت روس کے حالات پر بہت متوازن تبصرہ تحریر کیا لیکن نہرو مارکسسٹ نہیں بنے۔ کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے سائنسی طریقہ نے انہیں مسحور کیا لیکن قدیم ہندوستانی ثقافت اور روایات کے اثر نے انہیں مارکسسٹ نہیں بننے دیا۔
نہرو نے 1933 میں اندرا گاندھی کو ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے پوچھا، ’’کیا واقعی انسانی زندگی کی تمام پیچیدگیوں کو منطق سے حل کرنا ممکن ہے جیسا کہ مارکسزم کہتا ہے؟‘‘ خط میں نہرو کی طرف سے اٹھائے گئے شبہات مضبوط تھے۔ وہ مارکسزم کی بہت سی چیزوں سے متاثر تھے لیکن وہ اس کی سختی کو ناپسند کرتے تھے۔
وہ بڑی شدت سے محسوس کرتے تھے کہ ہندوستان کو تاریخ ایک سیکولر ملک کے طور پر یاد رکھے، ہندوستان میں مشینی دور کا آغاز ہو، ہندوستان کو وہ سب کچھ کرنا چاہئے جو جدید ہے - جوہری توانائی سے لے کر راکٹ تک، ڈیموں سے لے کر بڑی فیکٹریوں تک۔ نہرو کا خواب تھا کہ ہندوستان کا آئین اور ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کی صدارت میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل دی جائے۔ ایک طرف، جب ہندوستان ایک جمہوری ملک بن رہا تھا، نہرو نے ہندوستان کے تانے بانے میں سائنسی نقطہ نظر کو ابھارنے کا کام کیا۔
یہ نہرو کا وژن تھا جس نے آج کی تمام یونیورسٹیوں، جوہری، ایٹمی پراجیکٹس، بھاکڑا نانگل اور ایسے بہت سے ڈیموں، بین الاقوامی یونیورسٹیوں، طبی اداروں، بینکوں، بھاری صنعتوں، ایمس جیسے جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھی جا سکی اور ہندوستانی طلباء کو غیر ملکی طلبا کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع ملا۔
1952 کے انتخابات کے بعد دائیں بازو کے لوگوں کے حوصلے پست ہو گئے، جن میں زیادہ تر جاگیردار اور کچھ کانگریس مخالف سرمایہ دار شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کانگریس کے ان سیاسی مخالفین نے فیصلہ کیا تھا کہ ’’اگر ہم نے کانگریس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تو نہرو کو بدنام کرنا ہوگا۔‘‘ اس کے لئے کبھی نہرو کے معاون رہے سماجوادیوں نے بھی ہندواوادیوں ےس ہاتھ ملا لیا۔
چاہے ہومی جہانگیر بھابھا اور بھٹناگر جیسے سائنسدان ہوں؛ مصر کے ناصر، یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو، امریکہ کے صدر آئزن ہاور جیسی سیاسی ہستیاں ہوں، یا پھر البرٹ آئن سٹائن، چارلی چپلن یا ہیرالڈ لاسکی جیسے مفکرین - ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں میں نہرو کی عزت تھی۔ نہرو اتنے بڑے دانشور تھے اور اس کی چمک ایسی تھی کہ ان کی زندگی میں بھی ان کے مخالفین کے لیے اسے توڑنا ناممکن تھا۔
نہرو ایک دوراندیش کے طور پر جانے جاتے تھے لیکن جب وہ وزیر اعظم بنے تو انہیں ہندوستان کے زمینی حقائق کا بخوبی اچھا اندازہ تھا۔ اگرچہ نہرو اس وقت عالمی سیاست میں غیروابستہ گروپ کے ایک نمایاں رہنما تھے لیکن انہوں نے ہندوستان میں معیشت کو ملی جلی شکل دی۔ انہوں نے سوویت یونین کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مختلف شعبوں میں بہت بڑی سرکاری صنعتیں بنائیں۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے نے ہندوستانی سائنسدانوں کو تلاش کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے نہ صرف سائنس کے میدان میں بلکہ ادب، آرٹ اور سنیما کے میدان میں بھی اسی پالیسی پر عمل کیا۔
مشہور ریاضی دان اور ہندوستانی شماریات کے معمار ڈاکٹر پی سی مہالانوبس نہرو کی پنچ سالہ منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کے بانیان میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر مہالانوبس سٹالنسٹ تھے لیکن نہرو کی خاصیت یہ تھی کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہندوستان کی معیشت سٹالنسٹ نہ بن جائے۔ بعد میں نہرو نے ان تمام سرکاری کمپنیوں کی بنیاد رکھی جو دنیا پر راج کر رہی ہیں، جن سے آج مودی حکومت پیسہ کما رہی ہے۔ منافع حاصل کرنے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے مودی حکومت آج نہرو کی قائم کردہ سرکاری کمپنیوں کو بیچنے کی کوشش کر رہی ہے اور نہرو اور ہندوستان کی تاریخ میں ان کے کردار کو بدنام کر رہی ہے۔
جواہر لال نہرو اور ان کے والد موتی لال نہرو آزادی سے پہلے ہی امیر تھے۔ موتی لال نہرو کی ایک ممتاز وکیل کی حیثیت سے سالانہ آمدنی بہت زیادہ تھی لیکن انہوں نے اور جواہر لال نے خود کو ہندوستان کی آزادی اور کانگریس کے لیے وقف کر دیا۔ نہرو نے الہ آباد میں آنند بھون کو قوم کے نام وقف کیا۔ برطانوی حکومت کے خلاف لڑنے کا ان کا جذبہ ناقابل تردید تھا۔ نہرو کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان کچھ اختلاف رائے تھے لیکن پٹیل اور نہرو دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے۔ پٹیل کو محسوس ہوتا تھا کہ نہرو ایک انتہائی ڈیموکریٹک آدمی تھے۔
گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا پہلا مجسمہ گودھرا میں بنایا گیا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اسے نہرو نے بنایا تھا اور اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل زندہ تھے۔ اس موقع پر نہرو نے کہا تھا، ’’سردار پٹیل ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے آزادی کے لیے بہادری سے جنگ لڑی اور اب بھی وہ اس آزادی کو برقرار رکھنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کا نقشہ ہی بدل دیا۔‘‘ اسی گودھرا میں اس صدی کے سب سے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے والے شدید ترین ہندوتواوادیوں کو اندازہ نہیں ہے کہ نہرو اور پٹیل میں ایک دوسرے کے لیے کیسی عزت اور پیار تھا۔ پٹیل اور نہرو کے درمیان کبھی اقتدار کی کشمکش نہیں ہوئی۔ حقیقت کے بارے میں ان کی سوچ میں فرق تھا اور اس میں کہ ایک عظیم ہندوستان کی تعمیر کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ نہرو آر ایس ایس پر مستقل پابندی کے پٹیل کے خیال سے متفق نہیں تھے۔ بلاشبہ بہت سے لوگ مانیں گے کہ پٹیل اس معاملے میں درست تھے۔
نہرو، پٹیل اور سبھاش بابو کامریڈ تھے۔ سبھاش بابو نے خود کہا تھا، ’’نہرو کی طاقت گاندھی جی سے زیادہ ہے۔ کیونکہ نہرو کو بائیں بازو کی حمایت حاصل ہے جو خود بائیں بازو کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘ نہرو اور سبھاش بابو کے درمیان اقتدار کی کشمکش نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سبھاش بابو کے کانگریس صدر بننے سے پہلے بھی نہرو دو بار کانگریس کے صدر رہ چکے تھے۔ سبھاش بابو نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں مسولینی، ہٹلر کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی اور نہرو نے ان کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود نیتا جی نے اپنی بٹالین کا نام جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی کے نام پر رکھا۔ سبھاش بابو ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے گاندھی جی کو 'بابائے قوم' کہہ کر مخاطب کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کے جوانوں پر غداری کا الزام لگایا گیا اور لال قلعہ میں ان پر مقدمہ چلایا گیا تو نہرو ان کے لیے کھڑے ہوئے اور ایک وکیل کے طور پر پیش ہوئے۔ بوس، گاندھی، پٹیل اور نہرو کے درمیان اقتدار کی لڑائی کی کہانیاں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے ناگپور کے ریشم باغ سے عام کیں۔
نہرو کا خیال تھا کہ سیکولرازم ہندوستان کو مضبوط بنائے گا۔ 1937 میں نہرو نے مسلم لیگ کے ساتھ کابینہ بنانے سے انکار کر دیا۔ مسلم لیگ کو اتنے ووٹ نہیں ملے جتنے کانگریس کو ملے تھے۔ تمام مسلمان کانگریس کے پیچھے نہیں تھے لیکن تمام مسلمان لیگ کے پیچھے بھی نہیں تھے۔ مسلم لیگ کے لیے ہندو مہاسبھا کے بغیر تقسیم کے لیے کافی حمایت اور طاقت حاصل کرنا ناممکن تھا اور یہ ہندو مہاسبھا ہی تھی جس نے دو قومی نظریہ کو جنم دیا اور اس کی حمایت کی۔
سال 1937 میں کانگریس کی شاندار فتح کے بعد ہندو مہاسبھا نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے سندھ سے بنگال تک مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔ اس طرح ہندو مہاسبھا نے مسلم لیگ کی اخلاقی حمایت کی کانگریس کی نہیں کی! 1937 میں، مہاسبھا کی احمد آباد (کرناوتی) کانفرنس میں ساورکر نے کہا کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’آج ہندوستان کو ایک متحد اور یکساں قوم نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں دو قومیں ہیں ہندو اور مسلمان۔‘‘ مسلم لیگ نے بعد میں 1940 میں ہندوستان کی تقسیم کی تجویز پیش کی اور آگے بڑھایا۔ اس لیے ونائک دامودر ساورکر اور محمد علی جناح ہندوستان کی تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔ نہرو، گاندھی اور کانگریس میں ان کے اتحادیوں کو ساورکر اور جناح کے ذریعے کرائے گئے انتخابات کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
نہرو بلاشبہ ہندوستان کو مضبوط، جدید اور سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ اپنی زندگی میں انہیں مذہب کی بنیاد پر بنے پاکستان کا انہدام دیکھنا تھا لیکن ہندوستان نے 2014 تک خود کو 'ہندو پاکستان' بننے سے روکے رکھا۔ افسوس کی بات ہے کہ آج اس ملک کو ان چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے اندھیرے میں ڈھکیل دیا ہے جو نہرو سے نفرت کرتی ہیں۔ نہرو کی شخصیت اس قدر عظیم ہے کہ آج کے سیاسی مخالفین ان کے سامنے حقیر ہیں، جن میں ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کا دل نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔