نتیش کمار اپنی بات سے پلٹنے میں ماہر
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لیڈران حالات کے مطابق اپنی آواز بدل لیتے ہیں لیکن نتیش کمار جس تیزی کے ساتھ اپنی بات سے پلٹتے ہیں اس کی مثال نہیں۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کئی آواز میں ’گانا گانے‘ کے استاد معلوم ہوتے ہیں۔ جس شخص نے کچھ مہینے پہلے تک ’سنگھ مُکت‘ ہندوستان بنانے کے لیے سبھی غیر بی جے پی پارٹیوں کو ساتھ آنے کی اپیل کی تھی، وہ اب ’کانگریس مُکت‘ ہندوستان بنانے کے خواب دیکھنے والوں کی دھُن پر رقص کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی لیڈران حالات کو دیکھ کر اپنی باتوں سے پلٹنے میں ماہر ہوتے ہیں لیکن نتیش کمار جتنی تیزی کے ساتھ اپنی بات سے پلٹتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 12 فروری کو انھوں نے ایک دن پہلے بہار کے مظفر پور میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ذریعہ کیے گئے تبصرہ کا دفاع کرنے کی کوشش کی جب کہ انھوں نے جلد بازی میں یہ بھی جوڑ دیا کہ آر ایس ایس سربراہ کے تبصرہ سے متعلق انھیں مکمل جانکاری نہیں ہے۔
اپنے ہفتہ وار ’لوک سمواد‘ پروگرام کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے نتیش کمار نے کہا کہ ’’اگر ایک تنظیم یہ کہتی ہے کہ وہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے تو اس پر میں کیا تبصرہ کر سکتا ہوں؟ اگر ایک تنظیم یہ کہتی ہے کہ وہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے تو اس پر تنازعہ کیسا ہے؟‘‘
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نتیش کمار کو بھاگوت کی دفاع کرنے کی اتنی جلدبازی کیوں تھی؟ اگر وہ پوری طرح نہیں جانتے تھے کہ آر ایس ایس سربراہ نے کیا کہا تھا تو خاموش رہتے۔ اس سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ انھیں قومی اہمیت کے حامل اس موضوع کے بارے میں اچھی طرح سے جانکاری کیوں نہیں تھی جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں خبریں بلاتاخیر کہیں بھی پہنچ جاتی ہیں۔
میڈیا کی یہ امید جائز تھی کہ ایک دن پہلے ہی ریاست میں دیے گئے بھاگوت کے بیان سے وہ واقف ہوں گے کیونکہ نتیش کمار صرف بہار کے وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ جنتا دل یو کے قومی صدر بھی ہیں جو بی جے پی کے ساتھ مل کر بہار میں حکومت چلاتی ہے۔
جیسا کہ خبروں میں کہا گیا، بھاگوت نے 11 فروری کو کہا تھا ’’ہم ایک فوجی تنظیم نہیں ہیں، لیکن ہمارا ڈسپلن فوج جیسا ہی ہے۔ اگر ملک کو ضرورت ہوگی اور ہمارا آئین اس کی اجازت دے گا تو آر ایس ایس کے کارکنان کسی بھی جنگ کے لیے تین دنوں میں تیار ہو جائیں گے۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ہندوستانی فوج کو جنگ کے لیے تیار ہونے میں مہینوں لگتے ہیں۔
نتیش کمار کی بی جے پی اور آر ایس ایس سے کبھی محبت اور کبھی نفرت کے رشتے کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ انھوں نے بھاگوت اور ان کے پہلے کے آر ایس ایس سربراہ سدرشن کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا ہے۔ پھر بھی یہی نتیش کمار ہیں جنھوں نے اکتوبر 2015 میں بہار اسمبلی انتخابات کے دوران بار بار وزیر اعظم مودی سے موہن بھاگوت کے ذریعہ دیے گئے ریزرویشن والے بیان کی تنقید کرنے کے لیے کہا۔
پٹنہ ضلع کے ارول میں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے نتیش کمار نے کہا تھا ’’مودی نے موہن بھاگوت کے بیان کو خارج کیوں نہیں کیا؟ اگر وہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے حق میں ہیں تو مودی کو بھاگوت کے تبصرے پر سب کے سامنے تنقید کرنی چاہیے۔‘‘
آج نتیش کمار کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے یہ باتیں اس لیے کہی تھیں کیونکہ وہ آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہے تھے۔ لیکن 16 جون 2013 کو بھگوا پارٹی سے الگ ہونے کے بعد اور مئی 2014 میں لوک سبھا انتخابات میں زبردست شکست کا منھ دیکھنے تک انھوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف جو زہر اُگلا تھا اس کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔ اس وقت تو وہ کسی مجبوری یا دباؤ میں نہیں تھے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 12 جون 2010 کو بی جے پی کے بڑے لیڈروں کے لیے منعقد عشائیہ کو بھی انھوں نے منسوخ کر دیا تھا، جب وہ لوگ بہار کی راجدھانی میں دو دنوں تک اپنی پارٹی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ کر رہے تھے۔ ایک ہفتہ کے بعد انھوں نے نریندر مودی کی قیادت والی گجرات حکومت کے ذریعہ 2008 کے کوسی سیلاب کے بعد وزیر اعلیٰ راحت فنڈ کے لیے دی گئی 5 کروڑ کی مدد کو بھی واپس کر دیا تھا۔
عجیب بات ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ اس وقت کیا جب وہ اسی بی جے پی کے ساتھ مل کر بہار میں حکومت چلا رہے تھے۔ 8 سال بعد نتیش کمار کو محسوس ہو رہا ہے کہ انھیں بہت ساری چیزوں کے لیے معافی مانگنی ہوگی اگر وہ بی جے پی-آر ایس ایس کی نظر میں اچھے بنے رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے بھاگوت کے تبصرہ کو بغیر پوری طرح جانے انھیں آر ایس ایس سربراہ کی حمایت میں کھڑے ہونا مناسب لگا اور وہ بھی تب جب این ڈی اے کے کئی اور ساتھیوں نے اس مسئلہ پر اپنا منھ تک نہیں کھولا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔