’قریبی دوست‘ ہندوستان سے امریکہ کی دغا بازی!... نواب علی اختر
آخر کب تک ہمارے وزیر اعظم امریکی صدرسے یکطرفہ دوستی نبھاتے رہیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کو ان کی اس حرکت کے لئے مودی دل سے معاف نہ کر پائیں!
کورونا عالمی بحران کے دوران امریکہ نے اپنے ’قریبی دوست‘ ہندوستان سے بھی ’سودے بازی‘ کی روش اختیار کی ہے۔ عارضی طاقت کے زعم میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایسے وقت بھی خود غر ضی دکھائی ہے جب پوری دنیا خطرناک وباء کا سامنا کر رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) تک کو دھمکانے والے ٹرمپ کی طرف سے آزاد ممالک کے حقوق کو زبردستی تباہ کرنے کے طریقوں کو دادا گیری سے تعبیر کیا جارہا ہے کیونکہ ’سپر پاور‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے حقوق ہڑپ لے۔ امریکہ کی طرف سے کی جا رہی یہ ہٹ دھرمی عالمی ادارہ صحت کی طرف سے اس عالمی وباء میں باہمی تعاون کے خلاف ہے۔ دنیا بھر میں کورونا جانچ کی ٹیسٹنگ کٹ کے لیے مچے ہاہا کار کے درمیان امریکہ نے ہندوستان آ رہے 4 لاکھ کٹ کی کھیپ کو ہڑپ لیا۔ یہ سیدھے سیدھے امریکہ کی دادا گیری ہے۔ اس نے یہ بھی پرواہ نہیں کی کہ صدر ٹرمپ کے گہرے دوست نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور ڈیڑھ ماہ پہلے ہی احمد آباد میں ان کے استقبال میں ریکارڈ بھیڑ جٹائی گئی جبکہ کورونا کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
ہندوستان کے ساتھ ہوئی اس دغا بازی پر درباری صحافت جسے گودی میڈیا بھی کہا جا رہا ہے، کچھ بولنے پر خواہ ہچکچا رہا ہو مگر دیر سے ہی سہی خبر توعام ہو گی۔ گزشتہ ہفتہ کے روز چین سے چار لاکھ ریپڈ ٹیسٹنگ کٹ (آر ٹی کے) کی کھیپ تمل ناڈو پہنچنی تھی لیکن یہ امریکہ کی جانب روانہ کر دی گئی۔ یہ زبردستی ہے جو امریکہ کی جانب سے کٹ بھیجنے والی کمپنی پر دباؤ ڈال کر کی گئی۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ حکومت ہند نے اس واقعہ پر کوئی چوں چرا تک نہیں کی۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی کانفرنس کے دوران امریکہ کی اس حرکت پر پوچھے گئے سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ ہند کے دوران وہ احمد آباد میں جس راستے سے گزرتے، وہاں دیوار بنا دی گئی تھی تاکہ جس ہندوستان میں وہ آئے تھے ان سے اسی ہندوستان کے غریب عوام کہیں چھپائے جاسکیں۔ وہ بھی مودی کے ’گجرات ماڈل میں‘۔ ٹرمپ کے لیے ہی لاکھوں لوگوں کو کورونا انفیکشن کے خطرے کے باوجود ایک اسٹیڈیم میں بھیڑ لگا کر ان سے ’نمستے ٹرمپ‘ کروایا گیا لیکن جن ٹرمپ کے لیے وزیر اعظم مودی’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کہتے نظر آئے، انہی ٹرمپ کے امریکہ نے کورونا جیسی وبا کے دوران ہندوستان کے ساتھ دغا بازی کی۔
وزیر اعظم مودی کی خارجہ پالیسی کی ستائش کرنے والے لوگ اور ہندو مسلم کرنے والے زیادہ تر میڈیا میں اس خبر کو لے کر کوئی تشویش نہیں پائی گئی۔ نہ ہی کوئی وزیر اعظم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ امریکہ کو اس کی غلطی کا احساس کرانا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کو اس کی داداگیری کے لئے حکومت کی طرف سے ٹوکا بھی نہیں جا رہا ہے؟ چین اور اس کی کمپنیوں کا ہندوستان کے اوپر امریکہ کو ترجیح دینا بھی ہندوستان اور چین کے تعلقات کی کہانی بیان کرتا ہے۔ آخر کب تک مودی جی امریکی صدر سے یکطرفہ دوستی نبھاتے رہیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کو ان کی اس حرکت کے لئے مودی دل سے معاف نہ کر پائیں!۔ ٹرمپ کے ساتھ مودی کی گہری دوستی نظر آتی ہے لیکن ٹرمپ اس دوستی کو وقتاً فوقتاً ٹھینگا دکھاتے رہتے ہیں۔ صرف گزشتہ ہفتے ہی ٹرمپ نے ہندوستان کی طرف سے ہائڈروکسی کلورو کوائن دوائی امریکہ کو نہ دیئے جانے کے سوال پر نتیجہ بھگتنے یا جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ ہائڈروکسی کلورو کوائن دوا کی مانگ عالمی سطح پر بڑھ گئی ہے حالانکہ بہت سے ممالک کے ڈاکٹروں کا اس دوائی کی صلاحیت اور اس کے استعمال کو لے کر اختلاف ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے۔ ہندوستان بھی اس کے انفیکشن کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن میں ہے۔
ماہرین کے مطابق ہندوستان میں کورونا سے متاثر لوگوں کی شناخت اس لیے بھی نہیں ہو پا رہی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بڑی سطح پر جانچ نہیں ہو رہی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں فی 10 لاکھ لوگوں پر صرف 110 لوگوں کا کورونا ٹیسٹ ہو پا رہا ہے، جس سے ایک بات تو صاف ہے کہ حکومت کے پاس لوگوں کی جانچ کے لئے کافی ٹیسٹنگ کٹس نہیں ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق اگلے چھ ہفتوں تک ٹیسٹنگ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کتنی ٹیسٹنگ کٹس کی دستیابی ہے؟ فی ہفتہ یا روزانہ کتنے لوگوں کے ٹیسٹ اگلے چھ ہفتے میں ہوں گے؟ اس کا کوئی ٹھوس جواب وزارت کے پاس نہیں ہے۔ جانچ کی تعداد بڑھانے کے لیے مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ کئی ریاستی حکومتوں نے چین کی ایک کمپنی کو ریپڈ ٹیسٹنگ کٹس کے آرڈر دیئے تھے۔ چین کی اس خصوصی کٹ سے صرف آدھے گھنٹے میں کورونا انفیکشن کا پتہ لگایا جا سکتا ہے لیکن امریکہ کی دادا گیری کی وجہ سے اس کٹ کے آنے میں اب تاخیر ہوگی جس کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
ہندوستان اس لحاظ سے امریکہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ ہندوستان میں انسداد ملیریا کی دوا سے امریکہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ یہ دوا ہندوستان میں تیار ہوتی ہے۔ صدر امریکہ نے اس دوا پر عائد کردہ پابندی کو ہٹا کر اسے برآمد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستان کو’حکم‘ دیا تھا کہ اس دوا کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ دراصل ہندوستان میں بھی کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے سے حکومت ہند نے کئی دواؤں کی برآمدات پر پابندی عائد کردی تھی۔ صدر امریکہ نے دوا پر پابندی کے خلاف ہندوستان کو انتباہ دے کر جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔ مگر یہ دھمکی غیر ضروری ہے کیوں کہ آج ساری دنیا وائرس کے قہر کا سامنا کر رہی ہے تو ایسے میں ہندوستان کو بھی اپنے عوام کی ترجیحات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
امریکہ خود بھی اس وقت برآمدات کے معاملہ میں نازک مسئلہ سے دوچار ہے۔ کوئی بھی حکومت اس وقت ایسے موقف میں نہیں کہ وہ سردست میڈیکل ایکوپمنٹ کو تیار کرسکے۔ کسی بھی شئے کی فراہمی یا عدم فراہمی اور پابندی کا مسئلہ ملک کا داخلی معاملہ ہوتا ہے۔ ہندوستان نے اگر دواؤں پر پابندی عائد کی تھی تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے، یہ عالمی رجحان کا حصہ ہے۔ اب جب کہ ہندوستان نے برآمدات پر سے مشروط پابندی ہٹالی ہے تو تمام ملکوں کو بھی اسی طرح ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے انسانوں کو لاحق خطرات سے بچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔
کورونا وائرس کے شکار تمام ممالک کے لیے اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ ہندوستان کو اب ساری دنیا میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اہم رول ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان کے لیے یہ اہم موقع ہے کہ وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے۔ عالمی سطح پر میڈیکل سپلائی کو یقینی بناتے ہوئے کورونا وائرس سے متاثرہ تمام انسانوں کی زندگیاں بچانا ایک انسانی فرض ہے جس کو ہندوستان پورا کرنے کی پہل کرچکا ہے اس لئے امریکہ کوعالمی ادارہ صحت کو طاقت کے بل پر ڈرانے کی بجائے ہندوستان کی پیروی کرتے ہوئے خود غرصی سے باہرنکل کر انسانیت کی حفاظت کے لیے فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔