سچ کہتی ہیں امی! ہندوستان آزادی کے بعد بدلا ہے لیکن ڈی این اے تو وہی ہے...گوہر رضا
بیگو سرائے میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں لوگوں نے جوش و احترام کے ساتھ ہمارا استقبال نہ کیا ہو، لوگ کنہیا کے شکر گزار تھے کیونکہ ان کی وجہ سے ملک کا دانشمند طبقہ بیگو سرائے میں جمع ہو گیا تھا۔
میری والدہ کنیز وزارت 95 برس کی ہیں اور ہر روز اردو اخبار پڑھتی ہیں۔ وہ ہم آپ سے کہیں زیادہ ملک میں ہو رہی سرگرمیوں سے واقف ہیں۔ گزشتہ پانچ سال ان کے لئے کافی تکلیف دہ اور پریشان کن رہے ہیں۔ صحت ٹھیک نہیں رہتی ہے، کمزور ہو گئی ہیں، چلنے پھرنے پر پابندی ہے۔ خاص طور پر جب سے کولہے کی ہڈی میں فریکچر ہوا ہے تب سے چلنا پھرنا بند ہی ہے۔ انہوں نے آپریشن کرانے سے انکار کر دیا تھا اس لئے تکلیف بھی زیادہ ہے۔
تقریباً 15 روز قبل انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں انہیں جنتر منتر پر لے چلوں، جہاں خواتین کا احتجاج ہونے والا تھا۔ میرا جواب تو یہی تھا، ’’بالکل نہیں امی، آپ اتنی بیمار ہیں، کہاں جا پائیں گی، تکلیف بڑھ جائے گی۔ جاتے جاتے سانس پھول جائے گا، پھر احتجاج میں کسیے شامل ہوں گی آپ...‘‘
مجھے لگا کہ وہ اس حالت میں بھی نہیں ہیں کہ وہیل چیئر پر بھی بیٹھ سکیں۔ میں کچھ دیر تو خاموش رہا، کچھ نہیں کہا...اور پھر میں نے سوچا کہ آخر میں کون ہوتا ہوں ان پر اپنا فیصلہ مسلط کرنے والا۔ میری ذمہ داری تو ان کی خواہش پوری کرنا ہے۔ بہر حال انہیں لے جانے کی تیاری شروع کی گئی جو کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔ خیر میں نے یہ سب کر لیا۔ لیکن خاندان کے بقیہ لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ جنتر منتر پر جا رہی ہیں، کافی مشکل کام تھا۔ ایسے میں صحیح یہی تھا کہ کسی کو نہ بتایا جائے۔
جنتر منتر جاتے اور واپس آتے دونوں وقت انہیں الٹی بھی ہوئی، چکر آنے لگے لیکن ان کا ارادہ چٹان کی طرح اٹل تھا۔ تھوڑا چلنے پر ہمیں کار کو روکنا پڑتی لیکن انہوں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ چلو واپس چلتے ہیں۔ بس نیمبو پانی کا ایک گھونٹ لیتی اور بولتیں، چلو...
انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مجاہد کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔ برطانوی سامراج کے خلاف تحریک میں شامل رہے لوگ لوہا لاٹ ہو چکے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے رکن رہے میرے والد کے ساتھ والدہ نے بھی ظلم برداشت کیا ہے، آزادی کے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔
میری ماں اور ان کی چھوٹی بہن معصومہ فاطمہ جنہیں میں اور باقی سب خالہ جان کہتے ہیں دونوں نے الہ آباد میں اندرا گاندھی کے ساتھ کام کیا ہے۔ دونوں بہنیں اپنی ہی طرح کی مجاہد تھیں دونوں نے ہی اس دور کے رسم و واج کی زنجیروں کو توڑا تھا۔
اپنے زمانہ میں دونوں پہلی مسلم خواتین تھیں جنہوں نے بغیر برقعہ انتخابی تشہیر میں حصہ لیا۔ الہ آباد ایک تاریخی شہر ہے جو اُس وقت فرقہ وارانہ ماحول اور منفی سیاست سے پاک تھا لیکن آج یو پی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت اس کا نام تک مٹانے کی کوشش میں ہے۔ جب یوگی نے اس شہر کا نام بدلا تو میری ماں بہت غصہ میں تھیں۔
بہر حال خواتین کے جنتر منتر والے واقعہ کے تقریباً ایک ہفتہ بعد اچانک انہوں نے مجھ سے پوچھا ، ’’کیا بیگوسرائے نہیں جا رہے ہو؟ جاؤ اور کنہیا کے لئے تشہیر کرو، یہ ملک کے لئے اہم ہے، کنہیا کا جیتنا ضروری ہے۔‘‘
حالانکہ کئی کامریڈ مجھے پہلے بھی بیگو سرائے چلنے کے لئے کہہ چکے تھے لیکن میں تھوڑا تذبذب رہا تھا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میری بیوی شبنم ہاشمی نے پہلے ہی ’انحد ‘ کی ٹیم کے ساتھ وہاں جاکر تشہیر کرنے کا ارادہ بنا رکھا تھا اور امی کو ایک ہفتہ کے لئے اکیلا چھوڑنے پر دل بھی آمادہ نہیں تھا۔
امی کو شاید میری یہ کشمکش سمجھ آ گئی، کہنے لگیں، ’’میری فکر مت کرو، میں سحر (میری بیٹی) اور میلونی (ہمارے گھر کام کرنے والی) کے ساتھ ٹھیک رہوں گی۔ میری تکلیف سے زیادہ کنہیا کی جیت اہم ہے۔ جاؤ..‘‘ آخری جملہ میں تو انہوں نے گویا اپنا فرمان ہی سنا دیا، کہا ’’وہاں جاؤ، بیگوسرائے میں کنہیا کی جیت پورے ملک کے لئے اہم ہے...‘‘
تمام دوسری تنظیموں اور لوگوں کی طرح ’انحد‘ نے بھی طے کیا کہ وہ علیحدہ سے تشہیر کرے گی۔ میں بھی اس ٹیم میں شامل ہو گیا۔ لیکن دوسروں کی طرح گھر گھر جاکر تشہیر کرنے کے بجائے ’انحد نے‘ دوسرا راستہ اختیار کیا۔
ہم کسی بھی گاؤں میں جاتے، نعرے لگاتے، گانے گاتے اور گاؤں والوں کو کسی کھلی جگہ پر جمع کرتے اور پھر ان سے باتیں کرتے۔ ہم مرد ہو یا خواتین سب سے خوب باتیں کرتے، ان کی سنتے، اپنی کہتے۔ اس طرح کی میٹنگوں میں عموماً 50-60 افراد ہوتے۔ اس طرح ’انحد ‘ نے 70 سے زیادہ میٹنگیں کیں۔ میں نے ٹیم کے دیگر لوگوں کے ساتھ تقریباً 20 میٹنگوں میں حصہ لیا۔
اس دوران ہم بیگو سرائے کے دور دراز کے گاؤں میں گئے، تقریباً تمام ذات و مذہب کے لوگوں سے ملے۔ ایک بات تو صاف دکھ رہی تھی کہ ذات و مذہب سے بالاتر نوجوان اور خواتین کنہیا کے ساتھ ہیں۔ ہم اگر نہ بھی جاتے تو بھی یہ لوگ کنہیا کو ہی ووٹ دیتے۔ فرقہ پرستی اور ذاتیات کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹنے کی کتنی بھی کوشش کر لی جائے، یہ کوشش یہاں کام نہیں آنے والی تھی۔
کنہیا ان لوگوں کا ہیرو ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کنہیا ہمارا بھائی ہے، ہمارا بیٹوا ہے، کنہیا نڈر ہے، کنہیا پر جھوٹے الزام لگائے گئے ہیں، کنہیا بیگو سرائے کا بھگت سنگھ ہے، کنہیا ہمارے حقوق کے لئے لڑ رہا ہے، وہ ہماری آواز اٹھائے گا، وہ ملک کے سب سے طاقتور شخص سے لڑ رہا ہے..‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
در اصل 40 سے 60 سال کی عمر کے لوگ طاپنی پرانی سوچ سے نکلتے نظر آئے تاکہ وہ ایسے ہندوستان کے تصور کو ووٹ دے سکیں جس میں بانٹنے والی طاقتوں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔ ایسے مین ہم جیسے لوگوں کی موجودگی نے ان کی ہمت بندھائی۔
ایک بھی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں لوگوں نے جوش اور عزت کے ساتھ ہمارا استقبال نہ کیا ہو۔ تمام لوگ کنہیا کے شکر گزار اس وجہ سے بھی تھے کیونکہ ملک بھر کے دانشمند، فنکار، شعرا، مصنفین، طلبا اور اساتذہ بیگو سرائے میں جمع ہو گئے تھے۔ بیگوسرائے کے لوگوں کا خیال تھا کہ اب ہماری باری ہے کہ ہم کنہیا کو فتحیاب۔
میں 26 اپریل کو بیگو سرائے سے لوٹ آیا اور مجھے کنہیا کی جیت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ذات اور مذہب کے تمام حساب کتاب دھرے رہ جائیں گے۔ کنہیا نفرت اور مودی کی تقسیم کاری کی پالیسیوں کو کب کا ہرا چکا ہے۔
اصل میں بیگو سرائے میں انتخابی مقابلہ کنہیا اور گری راج کا نہیں بلکہ کنہیا اور مودی کا تھا۔ کیونکہ لڑائی دو نظریوں کی ہے۔ ہاں ایک احتیاط میں یہاں برتنا چاہوں گا کہ اگر چناؤ کنہیا اور ای وی ایم کا رہا تو نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
امی کنہیا کی جیت کی ہر روز دعا کرتی ہیں بھلے ہی یہ لڑائی کنہیا اور ای وی ایم کی ہی کیوں نہ ہو، انہیں بھروسہ ہے کہ کنہیا ہی جیتے گا۔ ان کی نظر میں آزادی کے بعد ہندوستان تبدیل تو ہوا ہے لیکن اس کا ڈی این اے تو آج بھی وہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔