چھتیس گڑھ و مدھیہ پردیش: کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ!... اعظم شہاب

موقع پرستی و حرصِ اقتدار جب سر چڑھ کر بولنے لگ جائے تو وہی ہوتا ہے جو چھتیس گڑھ و مدھیہ پردیش میں ہوا اور جو راجستھان میں ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی اور امت شاہ</p></div>

نریندر مودی اور امت شاہ

user

اعظم شہاب

چھتیس گڑھ کی عوام کے بھگواں نتائج کے ہفتے بھر بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے کا چھینکا ٹوٹا تھا، آج 8 دن بعد مدھیہ پردیش کی بیل بھی منڈوے چڑھ گئی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر منتخب ہونے والے موہن یادو کے نام کی تجویز شیوراج سنگھ چوہان نے پیش کی۔ بی جے پی کو کامیاب کرانے کی جن کی انتھک محنت سے ان کے مخالفین بھی انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن جس طرح چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کو ان کی بھرپور محنت کے باوجود کنارے کرتے ہوئے وشنودیو سائے کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا، اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی کیا گیا۔ قوی امید ہے کہ یہی روایت راجستھان میں دہرائی جائے گی جہاں دیاکماری و گجندر سنگھ شیخاوت سمیت دیگر 5 لوگ میں سے کسی ایک کو کمان سونپی جا سکتی ہے۔

وزیراعلیٰ کے ناموں کے اعلان میں اس تاخیر کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ تینوں ریاستوں کی کامیابی بی جے پی کے لیے غیر متوقع تھی اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وزارتِ اعلیٰ کی بندر بانٹ کیسے کی جائے۔ کیونکہ جنہوں نے الیکشن جتوایا ہے اگر انہیں کمان دے دی جاتی  تو ’بڑے صاحب‘ کا سہرا کچھ چھوٹا ہو جاتا، اور اگر کسی اور کو سامنے لایا جاتا تو اس پرانے خیمے کے ناراض ہو جانے کا خطرہ برقرار رہتا جو 2019 میں پارلیمانی سیٹوں پر جھاڑو مار کر بی جے پی کی گود میں ڈال دیا تھا۔ اس صورت حال نے بی جے پی ہائی کمان کے سامنے ایسی مصیبت کھڑی کر دی کہ نہ نگلتے بن رہا تھا اور نہ اگلتے۔ اس کے لیے مشاہدین کا ڈرامہ کھیلا گیا، جس کی چار دنوں کی ایکسرسائز کے بعد وشنو سائے اور موہن یادو کے نام کی پرچی نکل سکی۔


لیکن مدھیہ پردیش سے خبر یہ آتی رہی کہ بیشتر ارکانِ اسمبلی بھی پرانے چہروں کی واپسی چاہتے ہیں۔درمیان میں جیوترادتیہ سندھیا کا نام بھی سامنے آتا رہا لیکن پھر نریندرسنگھ تومر ان پر حاوی ہو جاتے رہے۔ لیکن تومر کو تو اسمبلی کا اسپیکر بنا دیا گیا، اور سندھیا صاحب جہاں تھے وہیں رہ گئے۔ ویسے بھی جب ایک انار سو بیمار والی کیفیت ہو تو نئے وفاداروں کی وفاداری پر بھروسہ کم ہی کیا جاتا ہے۔ مگر شیوراج ماما کی حالت دیکھ کر اچھے اچھے وفاداروں کے اوسان خطا ہوئے بغیر نہیں رہیں گے، جنہوں نے حکومت کے خلاف زبردست عوامی ناراضگی کے باوجود پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرایا اور جب وزیر اعلیٰ بنانے کی بات آئی تو انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ ماما جی نے چار روز قبل ہی اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے خواہشمند نہ تھے اور نہ ہیں، لیکن ان کے اس بیان میں پوشیدہ حسرت کو ہر کسی نے بخوبی محسوس کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی ایسی چیز ہاتھ لگ جائے جس کی توقع نہ ہو تو آدمی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے، اور اگر وہ چیز کسی ایک کے منتخب کرنے کی متقاضی بھی ہو تو پھر وہی حالت ہوتی ہے جو تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی ہوئی ہے، یا ہو رہی ہے۔ یہ بات بی جے پی ہائی کمان اچھی طرح جانتا ہے کہ رمن سنگھ، شیوراج سنگھ چوہان اور وسندھرا ہی ان ریاستوں کی زمام کار اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں، لیکن محض اس لیے کہ ان کے قدم کہیں مزید مضبوط نہ ہو جائیں، نئے لوگوں کو میدان میں لایا جا رہا ہے۔ لیکن اس فیصلے کے بیک فائر ہونے کا امکان ابھی سے ظاہر کیا جانے لگا ہے جس کے اثرات آنے والے عام انتخات میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ یہ سب حرصِ اقتدار کے لازمی نتائج ہیں جنہیں دیکھ کر اب کوئی حیرت بھی نہیں ہوتی۔


لیکن بی جے پی و آر ایس ایس کے سب سے عمدہ سنسکار کا مظاہرہ تو چھتیس گڑھ کے نومنتخب وزیر اعلیٰ وشنودیو سائے نے کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ ٹیلی فون پر کسی کو کہتے دیکھے جاتے ہیں ”سمجھ میں نہیں آتا تم لوگوں کو، گاڑ دیں گے سالے تم کو، تمہارا سر قلم کر کے، سمجھتے کیا ہو تم لوگ، الٹا ٹانگ دیں گے بھو... والے سالے، پتہ نہیں چلے گا تم کو الٹا لٹکا دوں گا۔“ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب کسی سرکاری افسر کو ان دعائیہ کلمات سے نواز رہے تھے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر لوگ ملک کی لیڈرشپ پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن اگر وہ ملک کی سب سے سنسکاری پارٹی کے اصل سنسکاروں کو پیشِ نظر رکھ لیں تو ان کی شکایت رفع ہو سکتی ہے۔ جس پارٹی کی خمیر میں ہی نفرت، دشمنی، عصبیت اور خون خرابہ شامل ہو اس کے لیڈروں سے بھلا اس طرح کی دھمکیوں کے علاوہ اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔

مدھیہ پردیش کے موہن دیو صاحب بھی کم سنسکاری نہیں ہیں۔ جس بدعنوانی کے نام پر مودی جی اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر لہو لہان کیے رہتے ہیں، موہن دیو صاحب پر اس کا نہ صرف الزام ہے بلکہ ان الزامات کی وجہ سے بی جے پی حکومت نے اپنا فیصلہ تک تبدیل کر دیا تھا۔ ہوا یوں کہ اجین کی نئے سرے سے تعمیر و ترقی کے لیے ایک ماسٹر پلان بنایا گیا تھا جس میں موہن یادو کے خاندان کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے غلط طریقے سے پاس کیا گیا۔ ان الزامات کے بعد ریاستی حکومت نے اس ماسٹر پلان کو لاگو کرنے سے روک دیا۔ لیکن جس حکومت و پارٹی کے نزدیک بدعنوانی پر صرف اپوزیشن کا ہی کاپی رائٹ ہو، اس کے یہاں ماسٹر پلان وغیرہ میں بدعنوانی کی بھلا کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔


چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ اور مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی محنت کو بڑے صاحب کے قدموں میں ڈال دیا گیا اور اب راجستھان کی باری ہے۔ لیکن یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ 4 ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں وہی پرانے چہرے بی جے پی کی نیا کے کھیون ہار بنیں گے، جنہیں آج سائڈ لائن کیا گیا ہے یا آئندہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا جب پتوار ان کے ہاتھ میں رہے۔ ایسی صورت میں جب جی جان سے محنت کرنے کے باوجود ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی ہے، کیا بعید ہے کہ یہ لوگ آئندہ اسی لگن و محنت کے ساتھ پارٹی کے لیے کام کریں۔ ایسی صورت میں یہ امکان مزید کم ہو جاتا ہے جب بی جے پی کی پوری سیاست نریندر مودی کے نکتے پر مرکوز ہو جائے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ تینوں ریاستوں میں جس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں وہ کسی طور پر پردھان سیوک کے لیے سازگار نہیں ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔