ایودھیا: بارش نے بتا دیا کہ حقیقی معنوں میں احسان فراموش کون ہے!... کرشن پرتاپ سنگھ

برسر اقتدار طبقہ کو کم از کم یہ تو پتہ چل ہی گیا ہوگا کہ ایودھیا کی عوام نے کیوں بھگوان رام کو 500 سال بعد ان کے اپنے گھر میں لانے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے والوں کو انتخاب ہرا دیا۔

<div class="paragraphs"><p>پہلی بارش کے بعد ایودھیا میں سڑکوں کی حالت خستہ</p></div>

پہلی بارش کے بعد ایودھیا میں سڑکوں کی حالت خستہ

user

کرشن پرتاپ سنگھ

ایک پرانے دوست کی بات سے بات شروع کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے دوست کی، جن سے ابھی حال تک میں کسی بھی بات پر متفق نہیں ہو پاتا تھا۔ وہ بھی مجھ سے متفق نہیں ہی ہوتے تھے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ تب ہماری دوستی اب تک صحیح سلامت کس طرح ہے؟ تو وہ کیا ہے کہ قومی شاعر رامدھاری سنگھ ’دنکر‘ کہہ گئے ہیں– ’دوستی بڑا انمول رتن‘، اور ہر عدم اتفاق کے باوجود اس رتن (جواہر) سے محروم ہونا مجھے منظور ہے، نہ میرے دوست کو۔ ہم میں سے کوئی زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین کہنے لگے تو بھی نہیں۔ ایک شاعر نے شاید ہم دونوں کی دوستی کے مدنظر ہی یہ شعر کہا ہے کہ ’ذرا سی بات پہ تو دوستوں سے کیوں جھگڑتا ہے، زمیں کو آسماں کہنے سے تیرا کیا بگڑتا ہے‘۔


لیکن گزشتہ دنوں بہار میں یکے بعد دیگر چار زیر تعمیر پُل گر گئے تو ہماری عدم اتفاقیوں کی حالت بدل گئی۔ اتنی کہ جب دوست نے کہا کہ دیکھتے جائیے، اس ملک میں تبادلہ خیال، اخلاقیات اور نیک نیتی کے پُلوں کو منہدم کرنے کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ایک دن پُلوں کے گرنے کے ایسے واقعات عام ہو کر رہ جائیں گے، تو میں ان سے عدم اتفاق ظاہر نہیں کر پایا۔

صاف کہوں تو سمجھ ہی نہیں پایا کہ کس طرح عدم اتفاق کروں۔ خاص کر جب خود ایسے واقعات کو منظوری ملتے (یعنی عوام کے فکرمند نہ ہوتے) دیکھ رہا ہوں۔ منظوری کے بغیر بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وزیر اعظم کے ذریعہ مدھیہ پردیش کے اجین میں واقع مہاکال لوک کوریڈور کے افتتاح کے 7-6 مہینوں میں ہی اس میں لگی ’سپت رشیوں‘ کی کئی مورتیاں آندھی کا زور بھی برداشت نہیں کر پاتیں، ٹوٹ پھوٹ جاتیں اور اس کی ذمہ دار حکومت کی پارٹی پھر انتخاب جیت کر اقتدار میں آ جاتی۔ اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔


اسی لیے گزشتہ پیر کو جب اچانک خبر آئی کہ ایودھیا میں جو عالیشان رام مندر تعمیر ہو رہا ہے اور وزیر اعظم کے ذریعہ جس کے افتتاح کے ابھی چھ ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ہیں، اس کی چھت سے پہلی ہی بارش میں پانی ٹپکنے لگا ہے اور اس میں موجود رام للا کے اہم پجاری آچاریہ ستیندر داس کے ذریعہ اس سلسلے میں مندر تعمیر کرانے والے رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ سے اپیل کرنی پڑی ہے کہ زیادہ بارش کی صورت میں رام للا کی پوجا وغیرہ رخنہ انداز ہو سکتا ہے، تو میں اپنے دوست کا رد عمل جاننے کا انتظار کرنے لگا اور اس کے لیے میں بے قرار سا ہو اٹھا۔

یہ سوچتے ہوئے کہ کیا پتہ، اس سلسلے میں ان کے تبصرہ سے میں عدم اتفاق رکھ پاتا ہوں یا نہیں۔ یہ جاننے کی بے چینی بھی ہوئی کہ مذکورہ ٹرسٹ کی تعمیرات کمیٹی کے سربراہ نرپیندر مشرا کی اس صفائی کے ساتھ کھڑتے ہوتے ہیں کہ گربھ گرہ کی چھت نہیں ٹپک رہی اور مندر میں اگر کہیں ایسا ہو رہا ہے تو وہ کوئی بڑی بات نہیں ہے یا آچاریہ ستیندر داس کے اس بیان کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ بارش کے بعد مندر کے دَرشن والے مقام (جہاں سے وی آئی پی دَرشن کرائے جاتے ہیں) میں پانی بھر گیا تھا، جسے نکالنے میں کافی مشقت کرنی پڑی۔ اپنے دوست کے رد عمل سے واقف ہونے کو لے کر میں اس لیے بھی بے تاب تھا کہ یہ خبر تنہا نہیں آئی تھی، بلکہ اپنے ساتھ کئی دیگر خبریں بھی لے کر آئی تھی۔


ایک تو یہی کہ اس مندر تک جانے والا 13 کلومیٹر طویل ’رام پتھ‘ بھی پہلی بارش نہیں برداشت کر پایا۔ وہ شہادت گنج سے ایودھیا تک 21 مقامات پر دھنس گیا اور اوپر سے گول دکھائی دینے والے اس کے گڈھوں کے اندر دیکھنے پر لگنے لگا کہ وہ کسی ندی کے ٹوٹے ہوئے دہانے ہیں۔ اس کے سبب اس راستہ پر جگہ جگہ بیریئر لگا کر پولیس کی تعیناتی کرنی پڑی اور ٹریفک نظام بہتر بنانے کے لیے پیوند لگانے پڑے۔ اتنا ہی نہیں، رام مندر کے آس پاس کے رہائشی علاقوں میں پانی بھر جانے سے اس کے باشندوں کو اپنے گھروں کی چھتوں پر پناہ لینی پڑی۔

مزید ایک خبر یہ تھی کہ جس نوتعمیر ایودھیا دھام ریلوے اسٹیشن کو عالمی سطح کا بتایا جا رہا تھا اور ’پران پرتشٹھا‘ سے پہلے جس کا افتتاح پورے تام جھام کے ساتھ کیا گیا تھا، اس کی نوتعمیر باؤنڈری والی دیوار پہلی ہی بارش میں 20 میٹر سے زیادہ منہدم ہو گئی اور اسٹیشن کے بڑے حصے میں پانی بھر گیا۔


میں بے قراری میں اندازہ لگانے لگا کہ اگلی بار دوست سے جیسے ہی ملاقات ہوگی، ان خبروں کو لے کر طنزیہ انداز میں پوچھیں گے ’دیکھ لیا نہ تریتا دور کی واپسی کا اثر؟‘ پھر کچھ زیادہ میں بول نہیں پاؤں گا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دوست کا فون آیا اور وہ میرے ’ہیلو‘ کہنے کا انتظار کرنا تک گوارا کیے بغیر کہنے لگے ’اب تو انھیں پتہ چل ہی گیا ہوگا؟‘ مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ اور انھیں مزید کیا پتہ چل گیا ہوگا؟ پھر بھلا میں کیا جواب دیتا؟

یہ مجبوری جب انھیں بتائی تو وہ ناراض ہوتے ہوئے بولے– ارے جناب، میں پوچھ رہا ہوں کہ جو لوگ اب تک ایودھیا کے باشندوں کو اس بات کو لے کر نہ صرف کھری کھوٹی سنانے اور معاشی بائیکاٹ کا مزہ چکھانے پر آمادہ تھے، بلکہ احسان فراموش بھی قرار دے رہے تھے کہ انھوں نے بھگوان رام کو ’اپنے گھر‘ کا 500 سال پرانا انتظار ختم کرا کر ایودھیا میں تریتا دور کی واپسی کرانے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے والوں کو انتخاب ہرا دیا، اب انھیں یہ معلوم ہو گیا ہوگا یا نہیں کہ حقیقی معنوں میں احسان فراموش کون ہے؟


میں نے قصداً انھیں پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ سچ کہوں تو ان کی حالت کا مزہ لینے کے لیے۔ لیکن تبھی اچانک ان کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور وہ جھنجھلا کر بول اٹھے ’ارے بے ایمانوں! (ان کا مطلب تھا میرے جیسے بے ایمان صحافی) تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟ تم نہیں بتاؤ گے تو کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلے گا؟ تم لوگوں نے نہیں بتایا تو بارش نے ہی بتا دیا کہ ایودھیا کے باشندوں نے جنھیں ہرایا، وہ ان کے تئیں ہی نہیں، بھگوان رام تک کے لیے احسان فراموش ہیں۔‘

وہ بولتے رہے اور میں سنتا رہا، ’بھگوان رام اس مندر سے زیادہ ٹھاٹھ سے تو ٹاٹ میں ہی تھے۔ ٹاٹ ٹپکتا یا پرانا پڑ جاتا تھا تو بدل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب؟ اتنا ’عالیشان‘ اور ’عظیم الشان‘ مندر تو بدل نہیں سکتے۔ بھلے ہی اس کی چھت سے پانی ٹپکتا ہو اور اس کے گربھ گرہ سے پانی نکل بھی نہیں پاتا ہو۔ گربھ گرہ میں ان کو غسل کرایا جاتا ہو تو بھی پانی تھال (بڑے پلیٹ) میں جمع کر کے باہر لے جانا پڑتا ہو۔‘


میں پھر بھی کچھ نہیں بولا تو انھوں نے عاجز آ کر پوچھا ’تم سن بھی رہے ہو کہ نہیں؟‘ اور میرے ’سن رہا ہوں‘ کہتے ہی پھر شروع ہو گئے۔ ’تو کیا ایودھیا کے لوگ ان کے تئیں اپنی شکرگزاری ثابت کرنے کے لیے انھیں صرف اس لیے انتخاب در انتخاب ووٹ دیتے رہتے کہ انھوں نے ان کا ووٹ پانے کے لیے کئی ریاستوں و مرکز کے زیر انتظام خطوں کے سالانہ بجٹ سے کئی گنا زیادہ رقم ملک بھر کو ’سبز باغ‘ دکھانے کے لیے ایودھیا میں جھونک دی اور اپنے عملے کو اسے اناپ شناپ خرچ کرنے کے لیے آزاد کر دیا؟‘

میں نے پھر بھی منھ نہیں کھولا تو انھوں نے کہا ’تم سے بھلے تو وہ لوگ ہی ہیں، جنھیں عقیدتمندوں کے دیے چندے سے تیار ہو رہے رام مندر میں یکے بعد دیگرے دشواریاں پیدا ہونے کے بعد ایک پرانی فلم کے گیت کا یہ شعر بار بار یاد آنے لگا ہے- دیتے ہیں بھگوان کو دھوکہ انساں کو کیا چھوڑیں گے‘۔ اب مجھ سے بھی خاموش نہیں رہا گیا۔ اپنی بات کہنے کے لیے میں نے بھی ایک فلمی نغمہ کا ہی انتخاب کیا- ’کون وفادار ہے کون بے وفا ہے، ہم کو بھی پتہ ہے تم کو بھی پتہ ہے‘۔


’ہاں، یہ ہوئی نہ بات‘۔ انھوں نے کہا تو مجھے لگا کہ میرے اتفاق نے انھیں خوش کر ڈالا ہے اور وہ ’فاتحانہ جذبہ‘ سے بھر اٹھے ہیں۔ لیکن یہ خوشی بھی انھیں شکوہ سے روک نہیں سکا۔ وہ کہنے لگے ’اچھی بات ہے کہ آخر کار تمھیں بھی عقل آ گئی اور وزیر اعظم کو بھی۔ تم مجھ سے متفق ہونے لگے اور وزیر اعظم کو ملک کو چلانے کے لیے اتفاق بہت ضروری محسوس ہونے لگا۔‘ اس شکوہ کا جواب دینا مجھے ضروری لگا، اس لیے میں نے بلاتاخیر پوچھا ’لیکن کیا پتہ کہ وزیر اعظم کو شکریہ کے لیے اتفاق ضروری لگ رہا ہے یا احسان فراموشی کے؟ اور لوک سبھا اسپیکر کے انتخاب میں ضروری کیوں نہیں لگا؟‘

افسوس کہ دوست نے کوئی جواب دیے بغیر فون کاٹ دیا۔

آپ بتائیے، آپ کو کیا لگتا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔