آسام :این آر سی کی آڑ میں مسلمانوں اور بنگلہ بولنے والوں کے خلاف تعصب

آسام کے 2 حراست مراکز کی رپورٹ کو دبانے کی مخالفت میں انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر نے قومی انسانی حقوق کمیشن کےعہدے سےاستعفی دے کر ایک بار پھر مودی حکومت کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

آسام میں نیشنل رجسٹر فار سٹیزن (این آر سی) کو لے کر جو شک ظاہر کیا جا رہا کہ اس کے ذریعہ بڑےپیمانے پر ریاست سے مسلمانوں کو نکالا جا سکتا ہے اور گھس پیٹھیوں کے نام پر انہیں نشانہ بنایا جائے گا ۔ انسانی حقوق کے کارکن اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر کی رپورٹ اس جانب واضح اشارہ کرتی ہے۔ آسام میں چل رہے دو ڈٹینشن مراکز کے حالات پر مبنی اپنی رپورٹ کو دبانے کے خلاف ہرش مندر نے قومی انسانی حقوق کمیشن میں اپنے عہدے خصوصی مانیٹر برائے اقلیت سے استعفی دے دیا ہے۔ استعفی دینے کے بعد ہرش مندر نے ایک مرتبہ پھر مودی حکومت کے دور میں تمام اداروں اور کمیشنوں کے کام کاج پر سوال اٹھائے ہیں ۔

ہرش مندر نے اپنی رپورٹ کا متن ’قومی آواز‘ کے ساتھ شیئر کیا ۔ قاعدہ سے تو اس رپورٹ کو قومی انسانی حقوق کمیشن کو بھیجا جانا چاہئے تھا۔یہ رپورٹ بہت دھماکہ خیز ہے ۔ 37 صفحات پر مشتمل اس تفصیلی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آسام کے گول پارا اور کوکراجھار علاقوں میں غیر قانونی گھس پیٹھیوں کے لئے چل رہے ڈٹینشن مراکز میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ، اور یہاں پر قید لوگ بے حد خراب حالات میں زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن ( این ایچ آر سی)کے خصوصی مانیٹر کے طور پر ہرش مندر نے 22 سے 24 جنوری کو ان ڈٹینشن مراکز کا دورہ کیا ۔ ان کے ساتھ کمیشن کے دو افسران اور ایک رسرچ اسکالر اس دورے میں ساتھ تھے ۔ انہوں نے پایا کہ ان مراکز میں میاں بیوی اور بچوں کو علیحدہ علیحدہ رکھا گیا ہے اور سالوں سے کسی کو ایک دوسرے کے بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں ہے ۔

گولپارا میں خواتین کو رکھا جاتا ہے جبکہ کوکراجھار میں مردوں کورکھا جاتا ہے ۔ ان مراکز میں رہ رہے لوگوں کو اپنے اہل خانہ سے رابطہ رکھنے کا کوئی قانونی حق نہیں ملا ہوا ہے۔ یہ جیل افسران کی مہربانی پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کم از کم ان کی بات کرا دیں ۔ سبھاش رائے نامی ایک قیدی نے این ایچ آر سی کے چئیرمین سے یہ پوچھا کہ آخر دنیا میں کس ملک کے آئین نے میاں بیوی اور والدین کو اپنے بچوں سے الگ کرنے کا حق حکومت کو دیا ہو اہے۔ ہرش مندر نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ان ڈٹینشن مراکز میں قید یوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ اور سب سے زیادہ پریشانی میں قیدیوں کے بچے ہیں ۔ چھہ سال تک کی عمر تک تو بچہ والدہ کے ساتھ رہ سکتا ہے لیکن اس کے بعد ان کو دور کے عزیزوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ ان قیدیوں پر غیر ملکی اور بنگلہ دیشی ہونے کا الزام ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی ملک انہیں اپنا شہری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان کی حالت عجیب و غریب ہے ۔

اس رپورٹ میں ان کی دل دہلانے والی زندگی کی جانب اشارہ ہے ۔ گولپارا میں کل 62 ملزمین بیرون ممالک کے ہیں جس میں 54 بنگلہ دیشی ہیں جبکہ 4 ہندو ہیں ۔ تمام 54 بنگلہ دیشیوں نے اپنی سزا پوری کر لی ہے اور سب اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ان کا بنگلہ دیش میں اپنے اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگوں کے گھر والوں کو تو اس کا علم بھی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان میں قید ہیں۔ میانمار کی ایک مسلم خاتون نے بتایا کہ’’ اس کی شادی آسام کے ایک مسلم شہری سے ہوئی ہے اور اس سے ایک اولاد بھی ہے ہم ماں اور بیٹے کو قید کر لیا گیا ۔ کچھ وقت تک میرا شوہر مجھ سے ملنے آتا تھا لیکن بعد میں اس نے بھی آنا بند کر دیا‘‘ ۔ واضح رہے اس کا میانمار میں اپنے خاندان کے لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

ہرش مندر نے جن سوالوں کو اپنی رپورٹ میں اٹھایا ہے، ٹھیک انہی سوالوں کو لے کراقوام متحدہ کے چار خصوصی رپورٹر (rapporteur)نے بھی ہندوستانی حکومت کو 11 جون کو خط تحریر کیا ہے ۔ اس خط میں انہوں نے کہا ہے کہ نیشنل رجسٹر فار سٹیزن کے تحت مسلمانوں اور بنگلہ بولنے والوں کے خلاف تعصب برتنے کا شک ہے۔ ان کے خط میں تحریر ہے کہ آسام کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ ’’ آسام میں این آر سی کا عمل اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ آسام میں غیر قانونی طور پر رہ رہے بنگلہ دیشیوں کی شناخت ہو سکے اور جن کا نام این آر سی میں نہیں آئے گا ان کو ملک بدر کیا جائے گا‘‘۔ اس کے ساتھ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ مقامی اتھارٹی مسلمانوں اور بنگلہ بولنے والوں کے خلاف نظر آتی ہیں اور وہ شہریت کی تصدیق کرنے کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں تاکہ جائز ہندوستانی شہریوں کو این آر سی میں اندراج سے روکا جا سکے ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’بنگالی مسلم اقلیتوں کو جہاں تک شہریت کے فوائد کا تعلق ہے اس میں انہیں تعصب کا تجربہ ہوا ہے‘‘۔

ہرش مندر نے بتایا کہ جس طرح این ایچ آر سی نے ان کی مارچ 2018 میں سونپی گئی رپورٹ کی ان دیکھی کی اور اسے حکومت کے پاس نہیں بھیجا اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں سیاست ہو رہی ہے۔ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ان دونوں ڈٹینشن مراکز پر کوئی رپورٹ تیار کرنے اور مراکز میں کیا ہو رہا ہے اس کی جانچ کرنے کوئی گیا ہو۔ اس کے لئے ہرش مندر کو انسانی حقوق کمیشن کو منانے کے لئے کافی وقت لگا تھا ۔ اب جب ساتھ گئے دو افسران کی رپورٹ کو آگے بھیج دیا اور ہرش مندر کی رپورٹ کو دبا دیا تو ہرش مندر نے استعفی دے کر رپورٹ کو اجاگر کیا ہے ۔ ہرش مندر نے اپنی رپوٹ میں مرکزی حکومت کو کچھ اہم سفارشات بھیجی ہیں ۔ ان سفاشات میں کہا گیا ہے کہ ’’بین الاقوامی قوانین کے آرٹیکل 21 پر عمل کرتے ہوئے خاندانوں کو تقسیم مت کیجئے ، جو ضروری عمل ہے اس کو یقینی بنایا جائے، غیر ملکی شہریوں کی جلد از جدل ملک واپسی کو یقینی بنایا جائے ، ذہنی امراض میں مبتلا اور بزرگ مریضوں کا خصوصی خیال رکھا جائے ، ڈٹینشن آخری عمل ہونا چاہئے اور وہ بے میعادی نہیں ہو سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔