فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال تھی رام پرساد بشمل اور اشفاق اللہ کی دوستی
سدھیر ودیارتھی نے لکھا ہے کہ ’’آریہ سماجی نظریات کے رام پرساد اور اشفاق اللہ کی دوستی اور مادر وطن کی آزادی کے لیے ان کا ساتھ شہید ہو جانا فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہماری تاریخ کی بڑی وراثت ہے۔‘‘
ہماری آزادی کی لڑائی کا ایک اہم باب کاکوری کیس ہے۔ اس کے ساتھ ہی 17 دسمبر سے 20 دسمبر تک کے چار دنوں کی تحریک آزادی میں خاص اہمیت ہے۔ آج سے 90 سال قبل 1927 میں ان دنوں میں ہندوستان کے چار ہونہار بیٹے اسے آزاد کرانے کی اپنی کوششوں کے بعد ہنستے ہنستے پھانسی کے تختوں پر جھول گئے۔ ان چاروں مجاہدین آزادی کی زندگی کے بارے میں مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
- رام پرساد بسمل ان دنوں انقلابیوں کے اہم لیڈر تھے۔ اپنی دلیری اور سمجھداری کی کارروائیوں کے علاوہ وہ ایک اچھے شاعر اور نغمہ نگار کی شکل میں بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے نغمے آج تک لوگوں کی زبان پر ہیں۔
- اشفاق اللہ خان کی پیدائش شاہجہاں پور میں ہوئی۔ بہت کم عمر سے ہی وہ آزادی کی تحریک میں کود پڑے اور انقلابیوں میں ان کا اہم مقام بن گیا۔ پنڈت رام پرساد بسمل کے وہ بہت گہرے دوست تھے۔
- راجندر ناتھ لاہیڑی کی پیدائش 1862 میں پبنا ضلع (اب بنگلہ دیش) میں ہوئی، لیکن ان کا زیادہ تر وقت وارانسی میں گزرا۔ وہ ایک خوشحال فیملی سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آزادی کی لڑائی میں کودتے وقت انھوں نے سبھی سہولتوں اور آرائش کو بہ آسانی قربان کر دیا۔
- روشن سنگھ ایک پرائمری اسکول ٹیچر سے اوپر اٹھ کر سرکردہ مجاہد آزادی بنے۔ وہ کاکوری، شیر گنج وغیرہ مقامات پر اپنی ہمت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے پہلے وہ کسان تحریک میں بھی سرگرم رہے۔
انقلابی تحریک پر گہری نظر رکھنے والے مورخ سدھیر ودیارتھی نے لکھا ہے کہ ’’آریہ سماجی نظریات کے رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کی دوستی اور مادر وطن کی آزادی کے لیے ان کا ساتھ شہید ہو جانا فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہماری تاریخ کی بڑی وراثت ہے جسے جاننا آج بہت ضروری ہو گیا ہے۔‘‘
رام پرساد اور اشفاق اللہ دونوں ہی اعلیٰ درجہ کے شاعر تھے۔ ان کی تخلیقات نے ان کے بعد کے دور سے بھی آزادی کی تحریک میں اہم مقام پایا اور کئی مجاہدین آزادی کو متاثر کیا۔ دونوں ہی اپنے ہمت اور عزم مصمم کے لیے مشہور تھے۔ یہ وقت ایسا تھا جب مخالف حکمرانوں کے ذریعہ آزادی کی تحریک کو رخنہ انداز کرنے کے لیے ہندو-مسلم اتحاد توڑنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ایسے وقت میں ہندو-مسلم اتحاد کے کسی بڑے اور مشہور چہرے کی بہت ضرورت تھی۔ اس مشکل وقت میں رام پرساد اور اشفاق اللہ کی دوستی اس ہندو-مسلم اتحاد کی شکل میں بہت مقبول ہوئی اور لوگوں نے اس نشانی کو سر ماتھے پر لیا۔
بسمل نے اپنے آخری پیغام میں کہا تھا کہ:
’’اب ملک کے لوگوں کے سامنے یہ دعا ہے کہ اگر انھیں ہمارے مرنے کا ذرا بھی افسوس ہے تو وہ جیسے بھی ہو ہندو-مسلم اتحاد قائم کریں۔ یہی ہماری آخری خواہش تھی، یہی ہماری یادگار ہو سکتی ہے۔ سبھی مذاہب اور سبھی پارٹیوں کو کانگریس کو ہی نمائندہ ماننا چاہیے۔ پھر وہ دن دور نہیں جب انگریزوں کو ہندوستانیوں کے آگے سر جھکانا ہوگا۔‘‘
اشفاق اللہ خان کا آخری پیغام اس طرح تھا:
’’بھارت ماتا کے اسٹیج پر ہم اپنا کردار ادا کر چکے ہیں۔ غلط کیا یا صحیح، جو بھی ہم نے کیا آزادی حاصل کرنے کے جذبہ سے بھر کر کیا۔ ہمارے اپنے ہماری مذمت کریں یا تعریف، لیکن ہمارے دشمنوں کو ہماری ہمت اور بہادری کی تعریف کرنی پڑی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہم نے ملک میں دہشت گردی پھیلانی چاہی ہے، یہ غلط ہے۔ اتنی دیر تک مقدمہ چلتا رہا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ بہت دنوں تک آزاد رہے اور اب بھی کچھ لوگ آزاد ہیں، پھر بھی ہم نے یا ہمارے کسی ساتھی نے ہمیں نقصان پہنچانے والوں تک پر گولی نہیں چلائی۔ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا۔ ہم تو آزادی حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں انقلاب لانا چاہتے تھے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ہندوستانی بھائیو! آپ چاہے کسی بھی مذہب یا طبقہ کو ماننے والے ہوں، ملک کے کام میں ساتھ دو، بلاوجہ کا آپس میں نہ لڑو۔ راستے چاہے الگ ہوں، لیکن مقصد سب کا ایک ہے۔ سبھی کام ایک ہی مقصد کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں، پھر یہ بے کار کی لڑائی کیوں؟‘‘
یہ دونوں بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ پھانسی سے کچھ وقت پہلے اشفاق اللہ نے یہ تصنیف لکھی تھی...
بزدلوں ہی کو سدا موت سے ڈرتے دیکھا
گو کہ سو بار انھیں روز ہی مرتے دیکھا
موت سے ویر کو ہم نے نہیں ڈرتے دیکھا
موت کو اک بار جب آنا ہے تو ڈرنا کیا ہے
ہم سدا کھیل ہی سمجھا کیے، مرنا کیا ہے
وطن ہمیشہ رہے، شادکام اور آزاد
ہمارا کیا ہے، اگر ہم رہے نہ رہے
رام پرساد بسمل کو جب پھانسی کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو خوشی خوشی پھانسی کے پھندے کی طرف جاتے ہوئے انھوں نے کہا...
مالک تری رضا رہے اور تو ہی تو رہے
باقی نہ میں رہوں نہ میری آرزو رہے
جب تک کہ تن میں جان رگوں میں لہو رہے
تیرا ہو ذکر یا تیری ہی جستجو رہے
رام پرساد بسمل کی لکھی یہ سطریں تو بہت مشہور ہیں...
اب نہ اگلے ولولے ہیں، اور نہ ارمانوں کی بھیڑ
ایک مٹ جانے کی حسرت، اب دل بسمل میں ہیں
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔