کیا ہندو منقسم اور کمزور ہیں؟... شرد گپتا

یہ مہینہ انتخابات کا ہے، ایسے میں ’بنٹو گے تو کٹو گے‘ کے نعرے کا وسیع استعمال بتا رہا ہے کہ بھگوا بریگیڈ کس طرح لوگوں کو خوفزدہ کر کے اپنا اُلو سیدھا کرنے میں مصروف ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

علامتی تصویر، سوشل میڈیا

user

شرد گپتا

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اگست 2024 میں ’بنٹو گے تو کٹو گے‘ کا نعرہ اچھالا تھا، جب بنگلہ دیش میں لوگوں نے عوامی لیگ حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس دوران ہوئے تشدد میں بیشتر حملے عوامی لیگ حامیوں پر ہوئے، لیکن بی جے پی لیڈروں نے اسے ہندوستان میں ’کمزور‘ ہندوؤں کے ’خوف‘ کو بھڑکانے کے اوزار کے طور پر استعمال کیا کہ اگر وہ متحد نہیں ہوئے تو انھیں بھی جان سے مارا جا سکتا ہے، ان کے ٹکڑے کیے جا سکتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندو 8 فیصد ہیں، جبکہ ہندوستان میں 80 فیصد۔ تو کیا یہ اعداد و شمار ہی بے وقوفانہ دعوے کی حقیقت بیاں نہیں کر دیتے؟

اس کا جواب ہے ’شاید نہیں‘۔ تبھی تو اس نعرے نے الگ ہی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ یہ نعرہ انتخابی ریاست مہاراشٹر میں پوسٹرس پر دکھائی دیا ہے، خاص طور سے ممبئی میں، اور یوگی آدتیہ ناتھ بلاشبہ اس طرح کے رد عمل سے خوش ہیں۔ انھوں نے ہریانہ میں انتخابی تشہیر کے دوران بھی اس نعرے کا خوب استعمال کیا تھا۔ جلد ہی دیگر بی جے پی لیڈران نے بھی اسے کچھ پھیر بدل کے ساتھ اپنا لیا۔ ’بنٹو گے تو کٹو گے‘، ’ایک رہو گے تو نیک رہو گے‘ کا استعمال دیگ ربی جے پی لیڈران نے بھی کیا جن میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں، جنھوں نے کہا کہ ’’بنٹیں گے تو بانٹنے والے محفل سجائیں گے‘۔ اردو لفظ ’محفل‘ کے قصداً استعمال سے صاف ہو جاتا ہے کہ ان کے دل میں ’بانٹنے والے‘ کی شکل میں کس کی شبیہ رہی ہوگی۔


انتخابات کے حوالے سے نومبر انتہائی اہم مہینہ ہے۔ اسی دوران مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخاب کے علاوہ 48 اسمبلی حلقوں اور 2 پارلیمانی حلقوں کے لیے ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے میں ’بنٹو گے تو کٹو گے‘ نعرہ کا بڑھتا استعمال اس کے سیاسی مقاصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ نعرہ تخریب کاری والے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے میں معاون رہا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہندو اتحاد کے لیے ہیمنت بسوا سرما کا بیان کہ انصاری اور عالم انھیں لوٹ نہ سکیں، اور اس کے اگلے ہی دن وزیر اعظم مودی انتخابی ریلی میں جھارکھنڈ کی ’ماٹی اور بیٹی‘ کو لوٹنے کی منشا رکھنے والوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس سے بی جے پی کے اس دعوے کو قوت ملی کہ جھارکھنڈ میں بنگلہ دیشی درانداز لو جہاد اور لینڈ جہاد میں شامل ہیں۔

ٹی وی اینکر اور مدیر راہل شیو شنکر نے بھی اپنے بلاگ میں نعرے کے پیچھے کی سیاسی منشا بتائی۔ وہ لکھتے ہیں: یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کا تبصرہ ایک سوچی سمجھی سیاسی اُکساوے کی کارروائی ہے۔ یوگی کے پاس ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے کچھ ہی وقت بچا ہے جو بنٹے ہوئے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ ہندوتوا کے گھسے پٹے الفاظ کا کھل کر استعمال ان سبھی نچلی ذاتوں (دلت اور او بی سی) کو واپس بی جے پی کی طرف لائے گا جو پارٹی سے چھٹک گئی ہیں۔ اندازہ ہے کہ اسی چھٹکن کے سبب بی جے پی کو حالیہ لوک سبھا انتخاب میں یوپی میں کم از کم 20 پارلیمانی سیٹیں گنوانی پڑیں۔


آر ایس ایس جنرل سکریٹری (سرکاریہ واہ) دتاترے ہوسبولے نے بھی متھرا میں میڈیا سے کہا کہ ’’اگر ہندو سماج متحد نہیں رہا تو ’بنٹیں گے تو کٹیں گے‘ حقیقت بن سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے دلیل پیش کی کہ یوگی آدتیہ ناتھ سماجی اتحاد کی اپیل کر رہے ہیں اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ذات کی بنیاد پر تقسیم سماج کے لیے مضر ہوگا۔ دوسرا مقصد اپوزیشن کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبہ کی مخالفت کرنا ہے۔ ہوسبولے نے زور دے کر کہا کہ اگڑے پچھڑے، ذات اور زبان کی بنیاد پر منقسم ہندوؤں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کچھ طاقتیں ہندو سماج کو توڑنے کا کام کر رہی ہیں، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔‘‘ لیکن یہ سوال تو بنتا ہے کہ ہمارے ’نئے ہندوستان‘ کے ہندو کب سے خطرے میں آ گئے؟ پورے طبقہ کے خلاف لاٹھی اٹھانا کب سے ’احتیاط‘ مانا جانے لگا؟ ظاہر ہے، وہ ایک الگ ہی لغت کا استعمال کر رہے ہیں۔

آر جے ڈی کی ترجمان پرینکا بھارتی کو یہ سوال الجھا گیا ہے کہ ہندوؤں کو کون تقسیم کر رہا ہے اور کیوں؟ انھوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’’ذات کی بنیاد پر لوگوں کو کس نے تقسیم کیا ہے؟ ہندوؤں کو 3000 ذاتوں اور 25000 ذیلی ذاتوں میں کس نے تقسیم کیا ہے؟‘‘ انھوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ مونچھ رکھنے یا شادیوں میں گھوڑی پر چڑھنے کے لیے دلتوں پر حملہ اور ان کا قتل کون کر رہا ہے؟ انھوں نے تلخی کے ساتھ سوال کیا کہ ’’یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سال دیپوتسو میں ایودھیا کے دلت رکن پارلیمنٹ کو کیوں نہیں بلایا، وہ جوڑنے کے سوتردھار ہیں یا بانٹنے کے، اس کا فیصلہ آپ خود کریں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔