سی اے اے مخالف مظاہرین اور اقوام متحدہ کے ماہرین... سہیل انجم
دو تین روز قبل اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی ہے اس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں کا مقصد یہ ہے کہ سول سوسائٹی کو یہ پیغام دیا جائے کہ حکومت کی مخالفت برداشت نہیں کی جائے گی۔
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اگرچہ اب اس طرح سے نہیں چل رہا ہے جیسا کہ پہلے چلتا تھا تاہم سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آوازیں تو اٹھ ہی رہی ہیں۔ نہ صرف سی اے اے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں بلکہ احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف بھی بلند ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بلند آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور جامعہ کوآرڈینیٹشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر کی گرفتاری کے خلاف اٹھی۔ نہ صرف ہندوستان کے اندر ان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور انھیں رہا کرنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا بلکہ بیرون ملک سے بھی زوردار آوازیں اٹھیں۔ بہر حال اب انھیں تقریباً ڈھائی ماہ کی جیل کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
سی اے اے مخالف اس احتجاج نے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوا تھا اور جس کو شاہین باغ کی خواتین نے اپنی جرأت و ہمت سے زبردست تقویت فراہم کی تھی پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔ اور اب جبکہ کرونا وائرس اور لاک ڈاون کی آڑ میں اس احتجاجی تحریک میں پیش پیش رہنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو یہ معاملہ بھی پوری دنیا میں اٹھ رہا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے بڑے اور طاقتور عالمی ادارے اقوام متحدہ نے بھی آواز بلند کی ہے۔ دو تین روز قبل اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں تحریک چلانے والوں کی گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں کا مقصد یہ ہے کہ سول سوسائٹی کو یہ پیغام دیا جائے کہ حکومت کی مخالفت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ انھوں نے ایک قانون کے خلاف آواز بلند کرنے کے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو امتیازی قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف تو کارروائی کی گئی لیکن کپل مشرا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی مبینہ اشتعال انگیز تقریر کی کوئی جانچ کی گئی۔ حالانکہ ان کی تقریر کے ایک روز بعد ہی شمال مشرقی دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور خاص طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ کے خلاف خطرناک قانون کے تحت کارروائی پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صفورہ زرگر، اکھل گوگوئی اور دوسروں کے خلاف جن دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے وہ باعث تشویش ہے۔ خیال رہے کہ صفورہ زرگر کو پہلے جعفرآباد میں ایک سڑک بند کرنے کے الزام می گرفتار کیا گیا تھا اور عدالت نے انھیں ضمانت دے دی تھی۔ لیکن دہلی پولیس نے اسی روز انھیں دہلی میں فساد بھڑکانے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا اور ان پر انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت جلد ضمانت نہیں ہوتی۔ وہ تو صفورہ چونکہ حمل سے ہیں اس لیے انسانی بنیاد پر انھیں ضمانت مل گئی ورنہ بہت مشکل ہو جاتی۔
بہر حال اقوام متحدہ کے ماہرین نے حکومت اور پولیس کی کارروائیوں کی سخت گرفت کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والوں کو اس لیے گرفتار کیا جا رہا ہے تاکہ سماج کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ حکومت کے خلاف جو بولے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی اور حکومت کے فیصلوں کی مخالفت برداشت نہیں کی جائے گی۔
تقریباً اسی موقع پر ہندوستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ جب پندرہ دسمبر کو جامعہ ملیہ میں پولیس ایکشن ہوا تھا اور پولیس نے لائبریری میں گھس کر وہاں پڑھائی کر رہے طلبہ کو لاٹھیوں سے پیٹا تھا تو اس کے خلاف پہلے پورے ملک میں اور اس کے بعد پوری دنیا میں ہنگامہ ہوا تھا۔ ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں کے طلبہ اور دوسرے ملکوں کے تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی جامعہ کے طلبہ کی حمایت میں آگئے تھے اور پولیس کارروائی کی انھوں نے مذمت کی تھی۔
اس واقعہ کی جانچ کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے ایک وفد نے جامعہ کا دورہ کیا تھا۔ حالانکہ اس سے کوئی ایسی امید نہیں تھی کہ وہ جلد اپنی رپورٹ دے گا اور طلبہ کے حق میں دے گا لیکن یہ امید بھی نہیں تھی کہ اس کی رپورٹ میں پولیس تشدد کے لیے طلبہ کو ہی مورد الزام ٹہرا دیا جائے گا۔ اس نے جو رپورٹ جاری کی ہے وہ مکمل طور پر یکطرفہ ہے اور اس میں دہلی پولیس کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں نے تشدد کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ بسوں کو آگ لگائی اور پولیس والوں پر پتھر اور پٹرول بم پھینکے۔ وہ بھاگتے ہوئے جامعہ کے کیمپس میں گھسے جس پر مجبور ہو کر پولیس کو وہاں جانا پڑا۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو تحریک چلائی گئی وہ در اصل مقامی سیاست دانوں اور نیتاؤں نے چلائی تھی اور انھوں نے چالاکی کے ساتھ طلبہ سے یہ کام کروایا۔ اس کے مطابق یہ کوئی بہت بڑی سازش تھی اور اس سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیشن نے دہلی پولیس کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا اس سے بچا جا سکتا تھا۔ لائبریری میں آنسو گیس کے گولوں کی دستیابی کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا اور پولیس اس سے بچ سکتی تھی۔ اس نے متعلقہ ذمہ داروں سے کہا ہے کہ وہ لائبریری میں غیر ضروری طریقے سے لاٹھیاں چلانے والے پولیس والوں کی شناخت کریں اور ان کے خلاف پولیس ضابطے کے مطابق کارروائی کریں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامعہ میں غیر قانونی طور پر لوگ اکٹھا ہوئے اور لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے اسی لیے اس نے کارروائی کی۔
اس طرح اس نے تمام تر ذمہ داری جامعہ کے طلبہ پر ڈال دی ہے اور پولیس کو خاطی قرار دینے سے خود کو بچا لیا ہے۔ پولیس کارروائی کے سلسلے میں اس نے جو تبصرہ کیا ہے وہ پولیس کی حمایت میں جاتا ہے اور طلبہ کے احتجاج کے سلسلے میں جو تبصرہ کیا ہے وہ طلبہ کے خلاف جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن سے نہ پہلے کوئی امید تھی اور نہ اب ہے۔ وہ اگر چہ آزاد ادارہ ہے لیکن حکومت کے زیر اثر ہے۔ اسی لیے اس کی رپورٹ یکطرفہ ہے جس کی قطعی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM