فکر پر قدغن لگانے کی کوشش... سراج نقوی

تمام واقعات اشارہ دیتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کی روح کو کمزور کرنے اور ایسی راہ پر ڈالنے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں جس کا منطقی نتیجہ چند آمر افراد یا تنظیموں کے ملک پر تسلط کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
user

سراج نقوی

جمہوری ڈھنگ سے منتخب مودی سرکار کس طرح جمہوری اداروں اور جمہوری فکر پر قدغن لگانے کی کوششں میں مصروف ہے اس کی بے شمار مثالیں حکومت کے گزشتہ 9 برس کے دور اقتدار میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی اس حکومت نے کس کس طرح اپنے مخالفین کے خلاف اقتدار کا غلط استعمال کیا، کس کس طرح اصولوں کے نام پر تمام طرح کی بے اصولی کو روا رکھا گیا، کس کس طرح قانون اور آئین کی دھجّیاں اڑائی گئیں، اس کی وضاحت کسی ایک مضمون تو کیا کئی کئی جلدوں پر مشتمل کسی کتاب میں بھی شاید آسان نہ ہو۔ اس کے باوجود حکومت کے چند حالیہ فیصلے یا اس کی خاموش حمایت کے نتیجے میں ہونے والے کچھ واقعات اس لیے زیادہ باعث فکر ہیں کہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک کو جمہوریت کی راہ سے ہٹا کر فاشزم کی راہ پر لے جانے کی کوششوں میں شدت آگئی ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ حکمرانوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ اب جمہوریت کے راستے سے ایوان اقتدار تک پہنچنا آسان نہیں۔ اس لیے ایسے تمام حربے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ دلّی کی منتخب سرکار سے اہم اختیارات کو قانون بنا کر چھین لینے، الیکشن کمشنروں کی تقرری کرنے والی سہ رکنی کمیٹی میں سے چیف جسٹس کو ہٹا کر کسی کابینہ وزیر کو تیسرا رکن بنانے کی کوشش اور تعزیرات ہند و ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی تیاری کے پس پشت مقصد درحقیقت یہی ہے کہ آہستہ آہستہ جمہوری اداروں کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ ان میں سے کوئی بھی ادارہ حکومت سے سوال کرنے کی جرات نہ کر سکے، یا حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ دے کر جمہوریت کا تحفظ کرنے کے اختیارات سے ہی محروم ہو جائے۔

اس تناظر میں دو حالیہ واقعات پر سنجیدگی سے غور کرنے اور حکومت کی منشاء یا اصل مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان میں پہلا معاملہ آئین کو بدلنے کا مشورہ دینے والا ایک مضمون ہے، اور دوسرا معاملہ اشوکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا وہ ریسرچ پیپر ہے جس میں انھوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے تعلق سے ’ہیرا پھیری‘ کا امکان ظاہر کیا تھا۔ اس پیپر کے سامنے آنے کے بعد جس طرح کا تنازعہ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ متعلقہ پروفیسر کے خلاف نفسیاتی دباؤ بنا کر انھیں ذہنی طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ٹارچر کیا گیا اس کے نتیجے میں سویہ ساچی نام کے اس پروفیسر کو استعفیٰ دینا پڑا۔


مذکورہ پروفیسر کے استعفیٰ کے بعد یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات نے اس معاملے میں سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ریسرچ پیپر پر یونیورسٹی کی گورننگ باڈی کا رد عمل ادارہ جاتی استحصال ہے۔“ شعبے نے گورننگ باڈی کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں مذکورہ ریسرچ پیپر پر گورننگ باڈی کے رد عمل کے تعلق سے یہ رائے بھی ظاہر کی ہے کہ اس سے تعلیمی آزادی کم ہوتی ہے اور اسکالرس کو خوف کے ماحول میں کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سویہ ساچی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ اسی لیے دیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے تعلق سے ایک ایسا موقف اپنایا تھا کہ جس کے بعد ان کا اپنے فرائض منصبی ادا کرنا مشکل تھا۔ یعنی پروفیسر کے لیے آزادی سے کام کرنے کے راستے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔

کسی بھی جمہوریت میں اگر کوئی دانشور کسی خاص معاملے میں کوئی رائے ظاہر کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی اس سے متفق ہو، لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ نظریاتی اختلاف کو حکمراں ٹولہ یا اس کے حامی خلاف قانون یا جرم مان لیں اور بات کو اس حد تک بڑھا دیا جائے کہ حکومت یا نظام کے خلاف موقف اختیار کرنے والے کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ اس طرح کا ماحول کسی سماج اور ملک کو فاشزم اور آمریت کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسروں کی رائے کو نہ برداشت کرنا جمہوریت کی جڑوں میں مٹھا ڈالنے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت کے راستے ملک کا اقتدار سنبھالنے والے جمہوریت کے اس مثبت پہلو کو بالائے طاق رکھ دینا چاہتے ہیں۔ سویہ ساچی کے استعفیٰ نے شعبہ اقتصادیات کے ایک سینئیر پروفیسر کو پلاپرے بالاکرشنن کو اس حد تک حالات سے بد دل کیا کہ انھوں نے بھی سویہ ساچی کی اخلاقی حمایت میں استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات نے شعبہ اقتصادیات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو اس حد تک ناراض کیا کہ انھوں نے یونیورسٹی کی گورننگ باڈی سے دو مطالبے کیے۔ ان میں پہلا مطالبہ سویہ ساچی داس کو بحال کرنا اور دوسرا مطالبہ گورننگ باڈی کے ذریعہ کسی ریسرچ کے جائزے کے لیے کوئی کمیٹی یا ایسے کسی دیگر طریقے کا استعمال نہ کرنے کا وعدہ کرنے کا بھی ہے۔


واضح رہے کہ سویہ ساچی کا ریسرچ پیپر سامنے آنے اور اس پر تنازعہ پیدا کیے جانے کے بعد یونیورسٹی نے اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ ایسا کسی خوف کے سبب کیا گیا یا دباؤ کے نتیجے میں یہ کہنا تو مشکل ہے، لیکن اس سے یہ اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے کہ فاشسٹ نظریات نے ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی کس طرح زبان و بیان کو اپنا غلام بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ظاہر ہے اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کو اس بات کا یقین رہتا ہے کہ موجودہ نظام بھی یہی چاہتا ہے۔ بہرحال شعبہ اقتصادیات نے مستعفی پروفیسر کے حق میں بیان دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ”پروفیسر داس نے اکادمک ضابطے کے دوران کسی بھی منظور شدہ کسوٹی کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔“ شعبہ اقتصادیات نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک بنیادی تعلیمی آزادی سے متعلق سوالوں کو مانسون 2023 سیمسٹر کی شروعات سے پہلے حل نہیں کیا جاتا ہے، تب تک شعبے کے اراکین اپنے تعلیمی فرائض کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی نے بھی شعبہ اقتصادیات کی حمایت کی ہے۔ 82 فیکلٹی ممبران نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ”ہندوستان میں یونیورسٹیوں کے اندر نظریاتی آزادی آج خطرے میں ہے۔“ بیان میں یہ بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ ”تنقید کو دبانا شعبہ تعلیم کی رگوں میں زہر گھولنے کے مترادف ہے۔“ یونیورسٹی کے دیگر کئی شعبوں نے بھی اس معاملے میں اپنی احتجاجی آواز بلند کی ہے۔

ایک اور معاملہ جو فاشزم کی طرف بڑھتے ہوئے ذہنوں کی عکاسی کرتا ہے وہ وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے صدر وویک دیب رائے کے ایک مضمون سے متعلق ہے۔ 15 اگست کو انگریزی کے ایک اخبار ’مِنٹ‘ میں شائع اس مضمون میں رائے نے ملک میں ایک نئے آئین کی ضرورت بتائی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ موصوف نے مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ اب ہمارے پاس وہ آئین نہیں ہے جو ہمیں 1950 میں ملا تھا۔“ رائے نے اپنے اس مضمون میں ملک کے آئین کو ”استعماری وراثت“ بھی قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ یہ کافی حد تک 1935 کے حکومت ہند کے ایکٹ پر مبنی ہے۔ دیب رائے کو آئین کی تمہید میں دیے گئے ”سوشلزم، سیکولرزم، ریپبلک اور مساوات“ جیسے الفاظ پر بھی اعتراض ہے۔ اسی بنا پر ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں خود کو ایک نیا آئین دینا ہوگا۔


وویک دیب رائے کے اس مضمون کی اشاعت کے بعد جب اس پر ہر طرف سے سخت اعتراضات اور اس کے حوالے سے حکومت پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت نے رائے کے مضمون میں ظاہر کیے گئے خیالات کو ان کے ذاتی خیالات بتا کر اس معاملے سے خود کو الگ تو کر لیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے آئین کے خلاف اس طرح کے نظریات کی تشہیر کرنے والا کوئی شخص آئین کے تحت حلف لے کر اقتدار میں آئے وزیر اعظم کی مشاورتی کونسل کی قیادت کرنے کا اہل ہو سکتا ہے؟ کیا یہ خیالات آئین کی توہین کے مترادف اور قانونی اعتبار سے قابل گرفت نہیں؟ بھلے ہی اس معاملے میں رائے کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جائے لیکن ایسے کسی بھی آدمی کو وزیر اعظم کی مشاورتی کونسل سے تو الگ کر ہی دیا جانا چاہیے کہ جس کا کوئی مضمون حکومت اور خود وزیر اعظم کے موقف پر سوال کھڑے کرنے کا باعث بنتا ہو۔ ایک طرف تو کسی پروفیسر کو صرف اس بنا پر ملازمت سے سبکدوش ہونے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ریسرچ پیپر میں گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں ہیرا پھیری کے امکانات کا جائزہ کیوں لیا؟ یا اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہی کیوں محسوس کی؟ اور دوسری طرف رائے کے مضمون کو ان کے ذاتی خیالات بتا کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے تمام واقعات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کی روح کو کمزور کرنے اور ایک ایسی راہ پر ڈالنے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں کہ جس کا منطقی نتیجہ چند آمر افراد یا تنظیموں کے ملک پر تسلط کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔ فکر پر قدغن لگانے کی کوششیں اس سمت میں پہلا قدم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔