خدا مسلمانوں کو ایسے ناصح و حکیم سے بچائے... ظفر آغا
یہ ہر کسی کا جمہوری حق ہے کہ وہ جس پر چاہے یقین کرے، جن کو مودی جی بھلے لگ رہے ہیں ان کو وہ مبارک لیکن خدارا پوری ایک قوم کے ناصح اور حکیم تو مت بنیے۔
جناب کوئی شخص کسی بلائے ناگہانی میں مبتلا ہو جائے تو اس کی مدد کرنے والا بھلے ہی کوئی نہ ہو مگر اس کو نصیحت دینے والے سینکڑوں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر پوری ایک قوم یکایک بے دست و پا ہو جائے تو ناصح کی گنتی کرنی مشکل ہو جائے۔ یہی حال اس وقت کچھ بے چارے ہندوستانی مسلمانوں کا ہے۔ سنہ 2019 کے چناؤ میں اس ملک کے مسلمان پر قیامت ٹوٹ پڑی ادھر ملک ہندو راشٹر کا رنگ روپ اختیار کر رہا ہے اور ادھر مسلم اقلیت دوسرے درجے کے شہری کی کگار پر ہے۔ اس بلائے ناگہانی میں مبتلا پوری قوم کے حواس باختہ ہیں جو فطری بات بھی ہے۔ لیکن ان حالات میں قوم کو نصیحت دینے والوں کی قطار لگی ہے۔ کوئی بذریعہ مکتوب وزیر اعظم کا ممنون و مشکور ہے اور ان کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کو تیار ہے تو کوئی آئے دن ہر معاملے میں مسلمانوں کی غلطیاں گنوانے پر آمادہ ہے۔ یہ بھی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کی جانب فلاح کا ہاتھ بڑھایا ہے بس اب پوری مسلم اقلیت کو نریندر مودی کا دامن تھام لینا چاہیے۔ کوئی یہ پوچھے کہ آپ کون، آپ نے مسلم اقلیت کے لیے کیا خدمت سرانجام دی تو کوئی ایسا کارنامہ نظر نہیں آتا کہ پوری کی پوری قوم آپ کو قائد مان لے۔ تو پھر پوری ملت کا ’اسپوکس مین‘ آپ کو کس نے بنا دیا۔ نہ تو کوئی قوم کے ساتھ مشورہ ہوا، نہ کہیں اس سلسلے میں کسی قسم کا بحث و مباحثہ ہوا۔ بس خود چند افراد کے دل میں جو آیا وہ گویا پورے ہندوستانی مسلمان کی آواز ہو گئی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان بحمداللہ ابھی تک جمہوری ملک ہے۔ یہاں ہر کسی کو اپنی آواز اٹھانے کا حق ہے۔ چنانچہ جن حضرات نے خط لکھا وہ ان کا اپنا اختیار تھا اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس سلسلے میں انگلی اٹھائے۔ لیکن اگر چند افراد پوری قوم کی آواز بن جائیں اور ان کی رائے میڈیا میں بحیثیت مسلم رائے کے زیر بحث ہو تو پھر چہ می گوئیاں کیا اس بات پر مباحثہ ہونا ہی چاہیے۔ الغرض جو وزیر اعظم کو خط لکھا گیا اس میں وزیر اعظم کی تقریر کا حوالہ ہے اور ساتھ میں یہ رائے ہے کہ وزیر اعظم نے مسلمانوں کی جانب ہاتھ بڑھایا ہے اس لیے مسلمانوں کو ان کا یقین کرنا چاہیے اور ان کا بہ الفاظ دیگر بی جے پی کا دامن تھام لینا چاہیے۔ بلاشبہ وزیر اعظم کی جس تقریر کا ذکر ہے وہ قابل صد احترام ہے اور اس کا خیر مقدم بھی ہونا چاہیے۔ لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب وزیر اعظم یا کوئی وزیر حلف لیتا ہے تو وہ یہ قسم کھاتا ہے کہ وہ اس ملک کے ہر باشندے (یعنی جس نے اس کو ووٹ دیا ہو یا نہ دیا ہو) اس کے ساتھ کسی قسم کا بھید-بھاؤ نہیں کرے گا اور اس کے ساتھ بطور نگراں آئین پوری طرح انصاف بھی کرے گا۔ چنانچہ پارلیمنٹ کے اندر وزیر اعظم جو تقریر کر رہے تھے وہ ان کا آئینی فرض تھا جو وہ بجا لائے۔
اب کسی پوری ایک قوم کے سیاسی فیصلے محض کسی سیاستداں کی دو چار تقاریر پر تو ہوتے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں اس سیاستداں اور اس کی پارٹی کا کچھ آگا-پیچھا بھی دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور خود وزیر اعظم کا پچھلا ریکارڈ دیکھیے تو کہیں سے مسلم اقلیت کے لیے کسی قسم کی ہمدردی کا شائبہ بھی نہیں نظر آتا ہے۔ آزادی کے بعد کیا ہوا، وہ سب تو جانے دیجیے، سنہ 1992 میں بابری مسجد انہدام سے لے کر ابھی ہفتہ بھر قبل جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کی موب لنچنگ تک بی جے پی کا ریکارڈ مسلم خون سے رنگا ہوا ہے۔ ایودھیا میں جس مجمع نے مسجد گرائی وہ سنگھ اور بی جے پی کی کال پر اکٹھا ہوا تھا۔ اس مجمع کو اکٹھا کرنے کے لیے اس وقت بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی رتھ یاترا کر ایودھیا پہنچے تھے۔ اڈوانی جی اس وقت بی جے پی کے صدر تھے اور مجمع ’بابر کی سنتانوں‘ کے خلاف نعرہ لگا رہا تھا۔ جس وقت مسجد گری اس وقت اٹل بہاری واجپئی کے سوا پوری بی جے پی اور سنگھ کے بھی اعلیٰ ترین لیڈران وہاں موجود تھے۔ یہاں یاد دہانی کے لیے یہ بھی ذکر کر دیا جائے کہ جس رتھ یاترا کا آغاز اڈوانی جی نے گجرات میں سوم ناتھ سے کیا تھا اس رتھ کی رسہ کشی کرنے والے پہلے شخص کا نام نریندر مودی تھا جو اس رتھ یاترا کے بعد پہلی بار ملک کی سیاست میں چمکے تھے۔ یہ تو تھا قومی سطح پر نریندر مودی کا سیاسی آغاز۔ پھر مسجد گری اور پورے ملک میں مسلم خون سے ہولی کھیلی گئی۔ کوئی دو ہزار افراد مارے گئے جن میں 99 فیصد مسلم تھے۔ اب یہ نصیحت کی دو تقریروں کے زور پر سب بھول جائیے۔
پھر وزیر اعظم نریندر مودی کا سنہ 2002 تک خود بی جے پی کے اہم ترین لیڈران میں شمار بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ تو گجرات فسادات میں مسلم نسل کشی کے بعد نریندر مودی ’نریندر مودی‘ بن گئے۔ وہ بھی کیسے! سنہ 2002 میں جس وقت مودی جی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو گودھرا حادثہ کے بعد گجرات میں قیامت خیز دنگے بھڑک اٹھے۔ مودی سرکار تین دن تک خاموش تماشائی بنی رہی اور پورے گجرات میں مسلم نسل کشی ہوتی رہی۔ خبریں یہاں تک ہیں کہ ایک مسلم عورت کے مادر شکن سے نوزائیدہ بچے تک کو نکال کر مار دیا گیا۔ بس اس کے بعد مودی جی گجرات میں ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن گئے اور تب سے وہ ہندو اَنگ رکشک بن کر باقاعدہ مسلم منافرت کی آڑ میں ہندو ووٹ بینک پر چناؤ لڑتے اور جیتتے رہے۔ پھر سنہ 2014 میں جب بطور بی جے پی وزیر اعظم نمائندے کے طور پر مودی جی نے پارٹی کیمپین سنبھالی تو ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کو گجرات دنگوں پر کتنا افسوس ہے۔ مودی جی کا جواب تھا ’’اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتے کے پلے کا ایک کار کے پہیے سے کچل کر مر جانے کا افسوس ہوتا ہے۔‘‘ اب نصیحت یہ ہے کہ یہ بھول جاؤ کہ تم کو کتے کا پلّا کہا اور سمجھا گیا۔ پھر سنہ 2014 سے 2019 کے درمیان ہندوستانی مسلمان کو موب لنچنگ اور دوسری طرح سے جس دہشت میں رکھا گیا ویسی دہشت کا دور اس ملک کی مسلم اقلیت پر کم بیتا ہے۔ اس ملک میں دنگے فساد سنہ 1947 سے ہی ہوتے چلے آئے ہیں۔ پھر ملیانہ، مراد آباد جیسے ہولناک فسادات بھی ہوئے۔ لیکن ایسی بے سرو سامانی کم دیکھنے کو ملی جیسی پچھلے پانچ برسوں میں رہی۔ ابھی جھارکھنڈ میں جب تبریز کی موب لنچنگ ہوئی تو وزیر اعظم نے بھری پارلیمنٹ میں اس کی مذمت کی۔ لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے جھارکھنڈ حکومت کو بھی کلین چٹ دے دی۔ اس سال اب تک ملک میں 11 موب لنچنگ کے واقعات ہو چکے ہیں، لیکن سب بھول جاؤ۔ کوئی ہمیں بتاؤ کہ کیا کیا بھولیں! اس پر نصیحت یہ کہ یقین کرو!
خیر، یہ ہر کسی کا جمہوری حق ہے کہ وہ جس پر چاہے یقین کرے۔ جن کو مودی جی بھلے لگ رہے ہیں ان کو وہ مبارک لیکن خدارا پوری ایک قوم کے ناصح اور حکیم تو مت بنیے۔ اور تو اور پھر کہنے والے یہ بھی کہیں کہ جو کچھ مسلمانوں کی گت ہے اس کے بس محض اکیلے وہی ذمہ دار ہیں، تو یہ بھی انگریزی زبان میں ’ہاف ٹروتھ‘ یعنی آدھا سچ ہے۔ یقیناً مسلم زوال کے لیے خود قوم بھی ذمہ دار ہے۔ لیکن بابری مسجد، ممبئی فساد، گجرات مسلم کشی یا اس سے پہلے ہونے والے فسادات کے ذمہ دار بھی محض مسلمان ہی کہے جائیں تو اس کو آپ ’ہاف ٹروتھ‘ نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے! پھر جو قوم سنہ 1947 سے محض اپنے تحفظ کے لیے جوجھ رہی ہے وہ اپنی ترقی کی راہیں کیا ڈھونڈھے گی۔
جیسا عرض کیا کہ جب کسی قوم پر برا وقت پڑے تو اس کی مدد کرنے والا کوئی ہو یا نہ ہو، اس کو نصیحت دینے والوں اور ان کی غلطیاں بتانے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ خدا ایسے ناصح و حکیم سے مسلمانوں کو بچائے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کوئی فرد واحد ہو یا پوری ایک قوم، کسی کا ہر وقت ہمیشہ بدحال ہی نہیں رہتا ہے۔ اس لیے ایسے ناصح کی ابھی اس کان سنیے اور اس کان اڑا دیجیے۔ ٹی وی تو مودی جی کا ہے ہی، ظاہر ہے وہاں جو آئے گا وہ ان ہی کا گن گائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Jun 2019, 10:10 AM