’بیٹی بچاو‘ کا نعرہ لگانے والوں کی کارستانیاں... سہیل انجم

کشتی فیڈریشن کے صدر بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ پر یہاں تک الزام ہے کہ جب کہیں دورہ ہوتا ہے تو وہ بھی ہوٹل میں اسی فلور پر قیام کرتے ہیں جس پر خاتون پہلوانوں کے قیام کا انتظام ہوتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>کشتی فیڈریشن کے خلاف دھرنا / یو این آئی</p></div>

کشتی فیڈریشن کے خلاف دھرنا / یو این آئی

user

سہیل انجم

بی جے پی اور اس کے رہنما بڑے فخر سے بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ان کی کارستانیاں بالکل اس کے برعکس ہے۔ آجکل ملک کے نامی گرامی خاتون پہلوانوں نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ انھوں نے کشتی فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ اور کوچز پر جنسی استحصال کا سنگین الزام لگایا ہے لیکن حکومت چپ ہے۔ وہ حکومت جو کہتی ہے کہ وہ خواتین کے احترام والی حکومت ہے، خواتین کی عزت کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خاتون پہلوانوں کے الزامات پر وہ خاتون وزرا بھی چپی سادھ کر بیٹھی ہوئی ہیں جو معمولی معمولی باتوں پر پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر حزب اختلاف پر خواتین کی بے حرمتی اور بے عزتی کرنے کا الزام عاید کرتی اور ان سے معافی کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ کشتی فیڈریشن میں ایک طویل عرصے سے خاتون پہلوانوں اور خاتون کوچز کے ساتھ جنسی زیادتی ہو رہی تھی۔ لیکن چونکہ پہلوانوں کے بقول وہ لوگ دبنگ قسم کے ہیں اور طاقت و اقتدار کے مالک ہیں، اس لیے غریب خاندانوں کی لڑکیاں منہ کھولنے سے ڈرتی رہی ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز مقابلے میں تین بار سونے کا تمغہ جیتنے والی پہلوان ونیش پھوگاٹ کا کہنا ہے کہ کم از کم دس بارہ خواتین نے ان کے ساتھ گفتگو میں جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ابھی ان کے نام واضح کرنا نہیں چاہتیں لیکن جب وقت آئے گا تو وہ ان کے ناموں کا انکشاف کریں گی۔ انھوں نے جب جنسی استحصال کا الزام لگایا تو وہ آبدیدہ ہو گئیں اور ان کے رخسار آنسووں سے بھیگ گئے۔


کشتی فیڈریشن کے صدر بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ پر یہاں تک الزام ہے کہ جب کہیں دورہ ہوتا ہے تو وہ بھی ہوٹل میں اسی فلور پر قیام کرتے ہیں جس پر خاتون پہلوانوں کے قیام کا انتظام ہوتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک خاتون پہلوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھلا رکھتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کو خاصی پریشانی ہوتی ہے۔ حالانکہ برج بھوشن نے اس الزام کی تردید کی ہے لیکن جس طرح پردرد انداز میں ان پر الزامات لگائے گئے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ الزامات جھوٹے ہیں۔

اس معاملے پر جنتر منتر پر دیئے جانے والے پہلوانوں کے دھرنے کا نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں کے میڈیا میں بھی چرچا ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے حکومت کوئی کارروائی کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو کچھ دنوں کے بعد اپنی رپورٹ دے گی لیکن بہرحال یہ پورا معاملہ بہت ہی سنگین ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کافی دنوں سے اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا ہے اور جب لڑکیوں سے برداشت نہیں ہو سکا تو انھوں نے اس معاملے کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پہلوانوں کا یہ قدم انتہائی جرأت مندانہ ہے اور ان کو اس حد تک جانے کے لیے کئی بار سوچنا پڑا ہوگا۔


برج بھوشن شرن سنگھ کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ وہ چھ بار سے پارلیمنٹ کا الیکشن جیتتے آرہے ہیں۔ اس وقت وہ قیصر گنج سے بی جے پی کے ایم پی ہیں۔ ان کا بیٹا پرتیک شرن گونڈہ سے بی جے پی کا ایم ایل اے ہے۔ برج بھوشن پہلے پہلوان رہے ہیں۔ اس میدان میں انھوں نے کافی نام کمایا تھا۔ وہ 1988 میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ انھوں نے 1991 میں پہلا الیکشن لڑا۔ لیکن 2009 میں وہ سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ سے کامیاب ہوئے۔ پھر 2014 میں بی جے پی میں واپس آگئے۔ وہ کشتی فیڈریشن کے 2011 سے منتخب صدر ہیں۔ آخری بار ان کا انتخاب 2019 میں ہوا تھا۔

برج بھوشن ایک دبنگ سیاست داں مانے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو باہو بلی کہا جاتا ہے۔ باہو بلی لفظ اپنے آپ میں بہت گہری معنویت رکھتا ہے۔ یعنی اگر کوئی باہو بلی ہے تو اس کا مطلب وہ قاعدے قانون کو اپنی ٹھوکر میں رکھتا ہے۔ برج بھوشن کئی اسکول اور کالج بھی چلاتے ہیں۔ وہ بہت مشتعل مزاج ہیں۔ دسمبر 2021 میں ریاست جھارکھنڈ کے رانچی میں انڈر۔15 ریسلنگ چمپئن شپ چل رہی تھی۔ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان پہلوان نے بھی شرکت کی خواہش ظاہر کی۔ حالانکہ وہ 15 سال سے اوپر ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس نے اسٹیج پر جا کر برج بھوشن شرن سنگھ سے درخواست کی کہ اسے بھی مقابلے میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ اس پر انھوں نے اسے اسٹیج ہی پر تھپڑ مارے تھے جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ اب ایک بار پھر اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ لڑکیوں کا الزام ہے کہ وہ ڈکٹیٹر کے انداز میں فیڈریشن کو چلا رہے ہیں۔ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کسی کی بھی نہیں چلتی۔ ایسے طاقتور شخص کے خلاف اور وہ بھی جو حکمراں جماعت کا ایم پی ہے، بولنا اور جنسی استحصال کا الزام لگانا آسان نہیں تھا۔


دراصل خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان کی بے عزتی اور تضحیک و تذلیل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ہریانہ کے ایک وزیر سندیپ سنگھ پر ایک خاتون کوچ نے جنسی استحصال کا الزام لگایا جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ بالآخر اس وزیر کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سینگر آبرو ریزی کے ایک معاملے میں جیل کی سزا بھگت رہے ہیں۔ بی جے پی کے ہی ایک اور ایم پی اور سابق مرکزی وزیر سوامی چنمیا نند پر ان کی ہی ایک شاگردہ نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ انھیں بھی جیل جانا پڑا تھا۔ لیکن بعد میں ایک عدالت نے انھیں بری کر دیا۔

ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور پھر اس کے قتل کے معاملے پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ اس معاملے میں بھی حکومت کا رویہ خواتین کے ساتھ ہمدردانہ نہیں تھا۔ یوپی کی حکومت اور پولیس نے اس معاملے میں جس طرح کارروائی کی تھی اس نے بہت سے سوالات کھڑے کیے تھے۔ اس معاملے میں بھی کسی سخت کارروائی کی امید نہیں ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت اس معاملے کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے۔ وہ تو خود کچھ کرنا نہیں چاہتی اور اگر حزب اختلاف بالخصوص کانگریس اس معاملے پر حکومت سے کوئی سوال کرتی ہے تو اسے سیاست قرار دے دیا جاتا ہے۔


قابل ذکر ہے کہ خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ خود بی جے پی میں ہیں اور ہریانہ حکومت میں شامل ہیں۔ اگر الزام لگانے اور دھرنا دینے والے پہلوانوں میں سے کسی کا بھی کسی سیاسی پارٹی سے تعلق ہوتا تو بی جے پی اب تک اسے سیاسی رنگ دے چکی ہوتی اور اس کے لیے اپوزیشن کو ذمہ دار ٹھہرا چکی ہوتی۔ برج بھوشن نے تو خود ہی یہ الزام لگایا ہے کہ انھیں بدنام کرنے میں ایک صنعت کار کا ہاتھ ہے۔ لیکن انھوں نے تادم تحریر اس صنعت کار کا نام نہیں بتایا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے یہ حکومت اپنی ہی پارٹی سے وابستہ پہلوانوں کے الزامات کی زد پر ہے اور اس کو کچھ سوجھ نہیں رہا ہے کہ وہ کیا کرے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سنگین الزامات پر فوری طور پر کارروائی ہو۔ جن پر الزامات ہیں ان کو ہٹایا جائے اور جب تک جانچ چلے ان سے ان کی ذمہ داری چھین لی جائے۔ اگر ان پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہوں گے تو وہ خود ہی الزامات سے بری ہو جائیں گے۔ بہرحال اس پورے معاملے نے حکومت اور بی جے پی کے بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کے نعرے کی ہوا نکال دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ محض نعرہ ہے۔ بیٹیوں سے ان لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔