ہوش کے ناخن لیجیے ورنہ پوری قوم خاکستر ہو جائے گی... ظفر آغا
ابھی تبلیغی جماعت کا موضوع پوری طرح ٹی وی پر ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ بیٹھے بٹھائے ٹی وی والوں کو مراد آباد میں ڈاکٹر کی پٹائی کا مرچ مسالوں والا موضوع مل گیا۔
جناب ناک کٹوا دی، گردن شرم سے جھکوا دی! جی ہاں۔ مراد آباد میں پچھلے ہفتے جو کچھ ہوا اس سے محض مراد آباد ہی نہیں بلکہ تمام ہندوستانی مسلمان شرمسار ہیں۔ مرادآباد میں جو کچھ ہوا اس سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک صاحب (مسلمان) کووڈ-19 سمپٹم کے ساتھ تمام قسم کے مریضوں کی طرح کوارنٹائن سنٹر میں داخل کر دیئے گئے۔ اس سنٹر کے حالات بہت خراب تھے۔ ان کو غالباً ٹھیک سے کھانا پینا بھی میسر نہیں ہوا۔ انھوں نے وہاں کے حالات پر ایک ویڈیو بنایا اور اپنے عزیزوں کو بھیج دیا۔ عزیزوں نے وہ ویڈیو پوسٹ کر دیا جو مرادآباد میں وائرل ہو گیا۔ اب شہر میں خبر گرم ہو گئی کہ بھائی حکومت مسلمانوں کو اس طرح بھوکا پیاسا مار رہی ہے۔ غالباً ایک دو روز بعد حضرت فوت کر گئے۔ اب جو طریقہ ہے، اسپتال کا عملہ ان کے عزیزوں اور آس پڑوس کے لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے اس علاقہ میں پہنچا۔ وہاں ویڈیو نے پہلے ہی غدر مچا رکھا تھا۔ صاحب، یہ جا وہ جا، دیکھتے دیکھتے سارا محلہ اسپتال کے ڈاکٹر اور وہاں کے عملے پر ٹوٹ پڑا۔ ڈاکٹر اور دوسرے طبی اہلکار بری طرح زخمی ہو گئے۔
مراد آباد والوں کے لیے تو بات ختم ہو گئی۔ لیکن صاحب چند منٹوں میں میڈیا کود پڑا۔ آپ واقف ہیں کہ مسلمان سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو بس پوری مسلم قوم کو میڈیا سولی پر چڑھانے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ایک غلیظ سا مولوی نما شخص بیٹھا کر اینکر چیخ چیخ کر گلا پھاڑ کر سوال کرتا ہے 'کیا یہی ہے اسلام؟ جواب دو، جواب دو'۔ اور وہ نامعلوم مولوی گردن جھکائے بیٹھا رہتا ہے۔ اس سے کوئی جواب ڈھونڈے نہیں بنتا۔ ساتھ میں پینل پر بیٹھے افراد یہ ماحول بنا دیتے ہیں کہ نعوذباللہ اسلام دہشت گردی کا مرض ہے۔ مسلمان تو ڈاکٹر تک کو بخشنے کو راضی نہیں۔ اور جناب ٹی وی پروگرام کو دیکھنے والے ہزاروں ناظرین کے دماغوں میں یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ صاحب کورونا وائرس کا مرض مسلمان جان بوجھ کر پھیلا رہا ہے۔ اس کا مقصد اس مرض کے ذریعہ ہندوؤں کو مارنا ہے۔
یہ کھیل ٹی وی کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف عرصے سے جاری ہے۔ چنانچہ ابھی تبلیغی جماعت کا موضوع پوری طرح ٹی وی پر ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ بیٹھے بٹھائے ٹی وی والوں کو مراد آباد میں ڈاکٹر کی پٹائی کا مرچ مسالوں والا موضوع مل گیا۔ بس پورے دن ٹی وی نے مراد آباد کو موضوع بنا کر مسلم مخالف زہر گھولنے کا کام شروع کر دیا۔ اور صاحب ٹی وی کے ذریعہ مسلمان پھر سے ہندو دشمن طے ہو گیا۔ یہ بات میں یوںہی نہیں عرض کر رہا ہوں۔ ابھی ہم اپنی ویب سائٹ پر خبریں اسی تعلق سے چھاپ چکے ہیں۔ پہلی خبر کا تعلق تو خود دہلی کے حوض خاص علاقے کی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک صاحب کے گھر میں لوگ کورونا وائرس کے شکار ہوئے۔ انھوں نے شور مچا دیا کہ یہ مرض ان کے گھر میں خود ان کے 'مسلم چوکیدار' کے ذریعہ داخل ہوا ہے۔ صاحب وہ تو اسپتال گئے ہی، ساتھ ان کے مسلم چوکیدار کی بھی دھر پکڑ ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد جب رپورٹ آئی کہ حضرت تو پازیٹو ہیں لیکن مسلم چوکیدار نگیٹو ہے، تو انھوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔
اسی طرح دہلی کے نزدیک یو پی میں ایک سماجوادی پارٹی کے ایم ایل اے کے گھر پر مزدور لوگوں میں مفت اناج تقسیم کرنے والی بوریاں رکھ رہا تھا۔ اس کو یکایک چھینک آ گئی۔ ان کی اہلیہ زور سے بول اٹھیں کہ اس کو کورونا وائرس تو نہیں۔ وہ مزدور فوراً بولا "میں ہندو ہوں۔" یعنی یہ مرض محض مسلمان پھیلا رہے ہیں، ہندو نہیں۔ جیسا پہلے عرض کیا تھا کورونا وائرس اس ملک میں اب باقاعدہ مشرف بہ اسلام ہو چکا ہے اور باقاعدہ کلمہ پڑھ چکا ہے۔ وہ حوض خاص کا باحیثیت ہندو ہو یا یو پی کا مزدور ہندو، اس کے ذہن میں یہ بات گھر کر چکی ہے۔ اس طرح ہندو سماج میں مسلمان ایک دشمن بن چکا ہے۔ پہلے تبلیغی جماعت کا ڈھول پیٹ پیٹ کر یہ امیج بنائی گئی، پھر مراد آباد جیسا کوئی اور واقعہ ٹی وی کے ہاتھ آ جائے تو صاحب بس اس کا کام بن جاتا ہے۔ غلطی چند مسلم افراد کی ہوتی ہے اور خمیازہ پورے ہندوستانی مسلمان کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اب بتائیے کہ مراد آباد میں جو کچھ ہوا اس سے ہماری اور آپ سب کی ناک کٹی اور گردن جھکی کہ نہیں۔ صاحب ہندوستانی مسلمان ہوش میں نہیں جوش میں کام کرنے کا عادی ہے۔ ہوش سے تو وہ کام کرتے ہیں جن کو جھوٹ کو ٹی وی پر سچ کرنے کا ہنر معلوم ہے۔ بھائی میرے، مسلمان ٹھہرا اقلیت میں، پھر ملک میں بی جے پی کی نفرت کا ڈنکا بج رہا ہے، ساتھ میں نریندر مودی جیسا مسلم مخالف حاکم وقت۔ کل کو چناوی کمپین میں ذرا سی غلطی کو پوری مسلم قوم کے سر منڈھ کر ہندو ووٹ بینک مستحکم کر پھر وزیر اعظم بن بیٹھے تو کوئی حیرت نہیں۔ مسلمان تو کورونا وائرس کے ذریعہ ہندو دشمن بن ہی چکا ہے۔ نفرت کا تیل پھیل چکا ہے، بس تیلی پھینکنے کی کمی ہے۔ اور پھر جو آگ لگے گی اس میں سارا ہندوستانی مسلمان بھن جائے گا۔ لیکن نہیں جناب، کسی کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ خود مراد آباد میں اس واقعہ کے بعد بارہ افراد گرفتار ہو چکے ہیں جن میں سے سنا ہے کہ سات عورتیں بھی ہیں کیونکہ وہ بھی جوش میں باہر نکل چکی تھیں۔ ان پر وہ دفعات لگی ہیں جس کے بعد ضمانت بھی نہیں مل سکتی۔
اب بتائیے، کیا کبھی ہندوستانی مسلمان ہوش کے ناخن لے گا یا بس ہمیشہ جوش میں نعرہ تکبیر لگا کر آگ میں کود پڑے گا، جیسے مراد آباد میں ہوا۔ خدارا، پھونک پھونک کر قدم اٹھائیے ورنہ پوری قوم خاکستر ہو جائے گی۔ یوں بھی اب بچا ہی کیا ہے۔ جو رہی سہی کسر ہے وہ کورونا وائرس کے 'مسلمان' ہونے کے بعد پوری ہو جائے گی۔ بس پھر این آر سی کے ذریعہ کیمپوں میں دوسرے درجے کے شہری کی زندگی بسر کیجیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مراد آباد آئسولیشن سینٹر کے حالات بہت خراب رہے ہوں گے۔ مراد آباد کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی ایسی خبریں آئیں جہاں ڈاکٹروں کی پٹائی کی گئی اور پٹائی کرنے میں کوئی مسلمان شامل نہیں تھا، مثلاً اندور سے ڈاکٹروں پر حملہ کی خبر منظر عام پر آئی جس میں مسلمان شامل نہیں تھے مگر ٹی وی تو ہر بات کی سزا محض مسلمان کو دیتا ہے۔ ہم کو اس بات کی گرہ باندھ لینی چاہیے اور اس حقیقت کے مدنظر پھونک پھونک کر ہوش میں قدم اتھانا چاہیے۔
اب چند دنوں میں رمضان شروع ہونے والا ہے۔ خدا کے واسطے مسجدوں کا رخ مت کیجیے۔ مفتیان مکہ اور تمام مسلم علمائے ہند اس سلسلے میں اعلان کر چکے ہیں کہ تراویح اور نماز کے لیے رمضان میں بھی مساجد کا رخ نہ کیجیے۔ اگر تین مئی کے بعد لاک ڈاؤن میں کچھ ڈھیل ہو بھی جائے تب بھی گھروں میں ہی عبادت کیجیے۔ کورونا وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگتا ہے۔ اس لیے عبادت بھی تنہا کیجیے۔ افطار کے لیے بھی مجمع مت اکٹھا کیجیے۔ جو افطار آپ مساجد میں تقسیم کرتے تھے، اب اس کو کسی طرح غریبوں میں خود تقسیم کروا دیجیے۔ ماہ رمضان عبادتوں کا مہینہ ہے، اس مہینے میں خود خاموشی سے زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزاریے۔ مگر جیسا عرض کیا، جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے۔ میں یہ بات لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں۔ یاد رکھیے، اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تو پوری قوم خاک ہو جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Apr 2020, 11:11 AM