راجیہ سبھا سیٹ: عام آدمی پارٹی میں بغاوت کا خدشہ
جس لوک پال بل کے لئے انہوں نے اپنی پہلی سرکار کی بلی دے دی تھی وہ لوک پال اب کہاں ہے۔
دہلی سے راجیہ سبھا کی تین سیٹوں کے لئےعام آدمی پارٹی (عآپ) نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے ۔ سنجے سنگھ، نرائن داس گپتا اور سشیل گپتا پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ان تین ناموں میں سے صرف سنجے سنگھ ایسے ہیں جو شروع سے پارٹی اور تحریک سے جڑے ہوئے ہیں باقی دیگر دونوں امیدوار سب کے لئے نئے ہیں ۔ دونوں ہی رہنما حال ہی میں پارٹی میں شامل ہوئے ہیں ۔ سشیل گپتا نےتو 28نومبر 2017کو ہی کانگریس سے استعفیٰ دیا تھا۔
ان ناموں کے اعلان کے بعد تحریک اور اروند کجریوال دونوں پر بڑے سوال کھڑے ہو گئے ہیں ۔ جس تحریک سے اس پارٹی نے جنم لیا تھا اس تحریک میں یہ دعوی تھا کہ وہ الگ طرح کی سیاست کرنے کے لئے آئے ہیں اور بدعنوانی کے خلاف لڑائی ان کا مرکزی مدّا رہے گا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس پارٹی نے ایک بھی کام ایسا نہیں کیا جو دیگر سیاسی پارٹی نہیں کرتیں۔ جس وی آئی پی کلچر کے خلاف، بڑے بنگلے نہ لینے کا عہد، لوک پال بل کو لاگو کرانا، محلہ سبھا وغیرہ کی باتیں اقتدار میں آنے سے پہلے کی تھیں ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔
دو مدّے سب سے بڑے تھے ایک لوک پال بل اور دوسرا بدعنوانی کے خلاف لڑائی اور جس انداز سے گزشتہ ڈھائی سال سے زیادہ وقفہ میں پارٹی کے وزراء پر بدعنوانی کے الزام لگے ہیں اس کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی صرف ایک انتخابی مدّا تھا۔ 2013میں کچھ کم سیٹیں حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے اروند کجریوال نے حکومت بنانے کے لئے اس وقت اس سیاسی پارٹی سے اتحاد کیا جس سے اتحاد نہ کرنے کے لئے انہوں نے اپنے بچوں تک کی قسمیں کھائی تھیں۔ جس لوک پال بل کے لئے انہوں نے اپنی پہلی سرکار کی بلی دے دی تھی وہ لوک پال اب کہاں ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ تحریک شروع کی تھی جیسے پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو، ان کو پارٹی سے کیسے دو دن میں نکال دیا۔ اب راجیہ سبھا کے امیدواروں کے ناموں کے اعلان کے بعد اروند کجریوال نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کو تحریک اور پاک سیاست سے کوئی غرض نہیں ہے ۔ ان امیدواروں کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اس میں پارٹی اور تحریک سے جڑے لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس میں خواتین کے ناموں میں سواتی مالیوال کا نام بہت زوروں سے چل رہا تھا، یہ بات بھی کی جا رہی تھی کہ اقلیتی طبقہ سے کسی کو نمائندہ بنایا جا سکتا ہےلیکن اروند کجریوال نے نہ تو پارٹی ، نہ تحریک سے جڑے لوگوں کو اور نہ سماج کے ان طبقوں کو کوئی اہمیت دی جو ہر اچھے برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ دوسری جانب سشیل گپتا اور نرائن داس گپتا میں کوئی بھی ایسی صلاحیت نہیں ہےجس کی وجہ سے ان کو راجیہ سبھا کا امیدوار بنا یا جائے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ معاشی طور پر دونوں بہت مضبوط ہیں۔
جن ناموں کا اعلان کیا گیا ہے اس کے بعد پارٹی کے ارکان اسمبلی اس بات پر سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ان کا مستقبل کیا ہے ۔ ان کودو سال بعد عوام کے پاس پھر ووٹ مانگنے جانا ہے تو وہ ان کے ایسے سوالوں کا کیا جواب دیں گے۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں اپنے لئے کچھ سوچیں۔اگر کمار وشواس میدان میں اترتے ہیں تو عام آدمی پارٹی سے جڑے ارکان اسمبلی ان کے ساتھ آ سکتے ہیں جو پارٹی کے لئے پریشانی کا سبب بنے گا۔اگلے دو دن عام آدمی پارٹی کے لئے بہت نازک ہیں اور اگر تحریک سے پیدا ہوئی اس پارٹی کے خلاف کوئی تحریک شروع ہو گئی تو اس پارٹی کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ عام آدمی پارٹی کے حامیوں میں بے چینی ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ کاش اروند کجریوال نے ایسا نہیں کیا ہوتا کیونکہ عام آدمی خود کو ٹھگا سا محسوس کر رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔