ہندوستانی بزنس کے لیے ایک نئی ڈیل... راہل گاندھی
ہمارے بینکوں کو سب سے بڑے 100 بااثر قرض داروں اور ان کے این پی اے کے تئیں اپنی محبت کو چھوڑ کر منافع بخش قرض دینے اور غیر جانبدار کاروبار کو حمایت دینے والے طریقوں کی تلاش کرنی چاہیے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی آواز کچل دی تھی۔ یہ آواز کچلی گئی ان کی تجارتی قوت سے نہیں بلکہ اپنے شکنجے سے۔ کمپنی نے ہمارے راجاؤں مہاراجاؤں اور نوابوں کی شراکت داری سے، انھیں رشوت دے کر اور دھمکا کر ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ اس نے ہمارے بینکنگ، نوکرشاہی اور اطلاعاتی نیٹورک کو کنٹرول کر لیا تھا۔ یاد رکھیے، ہم نے اپنی آزادی کسی دوسرے ملک کے ہاتھوں نہیں گنوائی؛ ہم نے اسے ایک اجارہ دار کارپوریشن کے ہاتھوں کھو دیا جو ہمارے ملک میں استحصالی نظام کو چلاتا تھا۔
کمپنی تجارت یعنی کاروبار کی شرطیں طے کرتی تھی اور مقابلہ آرائی کو ختم کر دیا۔ یہ طے کرنے لگی کہ کون کیا اور کسے فروخت کر سکتا ہے۔ کمپنی نے ہماری کپڑا صنعت اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بھی تباہ کر دیا تھا۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ کمپنی کے ذریعہ کسی ریسرچ یا مارکیٹ ڈیولپمنٹ کی شروعات کی گئی ہو۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ کمپنی نے ایک علاقہ میں افیم کی زراعت پر اجارہ داری حاصل کر لی تھی اور دوسرے میں نشہ کرنے والوں کا ایک بندی بازار تیار کر لیا تھا۔ پھر بھی جب کمپنی ہندوستان کو لوٹ رہی تھی، تب اسے برطانیہ میں ایک مثالی کارپوریٹ شہری کی شکل میں ظاہر کیا جا رہا تھا، اور یہ اس کے غیر ملکی شیئر ہولڈرس کو بہت پسند تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی 150 سال سے بھی پہلے ختم ہو گئی، پھر بھی اس نے جو خوف پیدا کیا تھا، وہ آج پھر سے دکھائی دینے لگا ہے۔ اجارہ داروں کی ایک نئی نسل نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ نتیجہ کار جہاں ہندوستان میں ہر کسی کے لیے عدم مساوات اور ناانصافی بڑھتی جا رہی ہے، یہ طبقہ بے پناہ دولت جمع کرنے میں لگا ہے۔ ہمارے ادارے اب ہمارے لوگوں کے نہیں رہے، وہ اجارہ داروں کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ آج لاکھوں کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، اور ہندوستان اپنے نوجوانوں کے لیے روزگار بنانے میں ناکام ہے۔ مادرِ ہند اپنے سبھی بچوں کی ماں ہے۔ ان کے وسائل اور طاقت پر کچھ چنندہ لوگوں کی اجارہ داری اور بہوجنوں کو نظر انداز کیے جانے سے انھیں گہری چوٹ پہنچی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ ہندوستان کے سینکڑوں سب سے باصلاحیت اور معروف تاجر ان اجارہ داروں سے ڈرتے ہیں۔ کیا آپ ان میں سے ایک ہیں؟ جو فون پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں؟ یا اس بات سے کہ اجارہ دار آپ کے علاقہ میں داخل ہونے اور آپ کو کچلنے کے لیے حکومت کے ساتھ ملی بھگت کریں گے؟ کیا آپ انکم ٹیکس، سی بی آئی یا ای ڈی کے چھاپوں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنا کاروبار انھیں فروخت کرنے کے لیے مجبور کریں گے؟ کیا آپ کو ڈر ہے کہ جب آپ کو سب سے زیادہ ضرورت ہو، تب وہ آپ کو پائی پائی کا محتاج کر دیں گے؟ یا وہ آپ کو پھنسانے کے لیے اچانک ہی اصول میں تبدیلی کر دیں گے؟
آپ جانتے ہیں کہ ان خاندانی گروپوں کو ’تجارت‘ کا نام دینا غلط ہے۔ ان کے ساتھ مقابلہ کرنا کسی کمپنی کے ساتھ مقابلہ نہیں ہے، یہ حکومت کی مشینری کے خلاف جنگ ہے۔ ان کی اصل صلاحیت مصنوعات، صارفین یا نظریات میں نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کے حکومتی اداروں، ریگولیٹری اور نگرانی پر کنٹرول رکھنے کی ہے۔ آپ کے برعکس یہ گروپ کنٹرول کرتے ہیں کہ ہندوستانی کیا پڑھتے ہیں، دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ آج کامیابی کا تعین بازار میں کارکردگی پر نہیں بلکہ اقتدار سے تعلقات پر منحصر ہیں۔
آپ کے دلوں میں خوف ہے، لیکن امید بھی قائم ہے۔
’میچ فکسنگ‘ کرنے والے اجارہ دار گروپوں کے برعکس چھوٹے کاروبار سے لے کر بڑے کارپوریشنوں تک کئی حیرت انگیز اور ایماندار ہندوستانی کاروبار ہیں، لیکن آپ خاموش ہیں اور ایک استحصالی نظام کو برداشت کر رہے ہیں۔ اگر ہم پیوش بنسل کا ہی مثال لیں تو، جو بغیر کسی سیاسی رشتہ والے، پہلی نسل کے صنعت کار ہیں، جنھوں نے صرف 22 سال کی عمر میں کاروبار شروع کیا تھا۔ انھوں نے 2010 میں لینس کارٹ کی بنیاد شراکت داری کے ساتھ ڈالی، جس نے چشمہ کے شعبہ کو ہندوستان میں نئی پہچان دی۔ آج لینس کارٹ پورے ہندوستان میں ہزاروں لوگوں کو روزگار دیتا ہے۔ پھر، ہمارے سامنے فقیر چند کوہلی کی مثال آتی ہے، جنھوں نے ایک منیجر کی شکل میں 1970 کی دہائی میں ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کی بنیاد ڈالی۔ یہ خوف پر آرزوؤں کی جیت تھی، اور آئی بی ایم اور ایکسنچر جیسی مشہور کمپنیوں کو ان کے اپنے شعبہ میں چیلنج پیش کرنے کی ہمت تھی۔ ٹی سی ایس اور دیگر شہرت یافتہ کمپنیوں نے عالمی آئی ٹی سروسز کو ایک بوٹیک صنعت سے ایک صنعتی پاور ہاؤس میں بدل دیا۔ میں پیوش بنسل یا آنجہانی ایف سی کوہلی کو ذاتی طور سے نہیں جانتا۔ ان کی سیاسی ترجیحات میری پسند سے الگ ہو سکتی ہیں، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نوجوان نسل سے ٹائنور، انموبی، مانیہ وَر، زومیٹو، فریکٹل اینالیٹکس، اراکو کافی، ٹریڈنس، اماگی، آئی ڈی فوڈس، فون پے، موگلکس، سُلا وائن، جس پے، جیرودھا، ویریٹاس، آکسیزو اور ایوینڈس جیسی کمپنیاں، اور پرانی نسل سے ایل اینڈ ٹی، ہلدی رام، اروند آئی ہاسپیٹل، انڈیگو، ایشین پینٹس، ایچ ڈی ایف سی گروپ، بجاج آٹو اور بجاج فائنانس، سِپلا، مہندرا آٹو اور ٹائٹن، کچھ ایسی گھریلو کمپنیوں کی مثالیں ہیں جنھوں نے تحقیق (ریسرچ) کی ہے اور اصولوں کے مطابق کام کرنا منتخب کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے سینکڑوں مزید کمپنیوں کو چھوڑ دیا ہے جو ان پیمانوں میں فِٹ بیٹھتے ہیں، لیکن آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔
میری سیاست ہمیشہ کمزور اور بے زبان لوگوں کی حفاظت کرنے کی رہی ہے۔ قطار میں کھڑے آخری شخص کی حفاظت کرنے اور اس کو سہارا دینے کے بارے میں مہاتما گاندھی کے کہے گئے الفاظ ہی میری ترغیب ہیں۔ مجھے منریگا اور کھانے کے حقوق کی حمایت کرنے اور حصول اراضی بل کی مخالفت کرنے کی ترغیب اسی سے ملی۔ میں قبائلیوں کے مشہور نیمگری سے متعلق جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے تین سیاہ زرعی قوانین کے خلاف اپنے کسانوں کی جدوجہد میں ان کی حمایت دی۔ میں نے منی پور کے لوگوں کے دل کا درد سنا۔
آج، جب میں آپ کو لکھ رہا ہوں تو مجھے احساس ہوا کہ میں گاندھی جی کے الفاظ کی پوری گہرائی سے چوک گیا ہوں۔ میں یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ’قطار‘ ایک علامت ہے۔ درحقیقت کئی الگ الگ قطاریں ہیں۔ کاروبار کی جس قطار میں آپ کھڑے ہیں، اس میں آپ ہی استحصال زدہ، محروم ہیں۔ اور اس لیے میری سیاست کا ہدف اب آپ کو وہ سب دلانا ہے جس سے آپ کو محروم کیا گیا ہے... غیر جانبدارانہ اور یکساں مواقع۔
کاروباری نظام میں بے نامی فارمولوں کی حمایت تو دور کی بات ہے، حکومت کو دوسروں کی قیمت پر بس ایک کاروبار کی حمایت کرنے کی اجازت تک نہیں دی جا سکتی۔ سرکاری ایجنسیاں کاروباروں پر حملہ کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے اسلحے نہیں ہیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو خوف اور دباؤ آپ پر بنایا گیا ہے وہ بڑے سرمایہ داروں پر منتقل کر دیا جائے۔ وہ برے لوگ نہیں ہیں، وہ ہمارے سماجی اور سیاسی منظرنامہ کی خامیوں کا نتیجہ ہیں۔ انھیں بھی جگہ ملنی چاہیے، جیسے کہ آپ کو بھی۔
یہ ملک ہم سبھی کے لیے ہے۔ ہمارے بینکوں کو سب سے بڑے 100 بااثر قرض داروں اور ان کے این پی اے کے تئیں اپنی محبت کو چھوڑ کر منافع بخش قرض دینے اور غیر جانبدار کاروبار کو حمایت دینے والے طریقوں کی تلاش کرنی چاہیے۔ آخر میں، ہمیں سیاسی رویہ کو تشکیل دینے میں سماجی دباؤ اور مزاحمت کی طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ مسیحاؤں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ خود وہ تبدیلی ہیں جو سبھی کے لیے دولت اور روزگار پیدا کریں گے۔
میرا ماننا ہے کہ ترقی پذیر ہندوستانی کاروبار کے لیے نئی ڈیل ایک ایسی سوچ ہے جس کا وقت آ گیا ہے۔
(مضمون نگار لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Nov 2024, 7:00 AM