سوشل میڈیا پر سشما سوراج کا ٹرول ہونا بہت کچھ کہہ رہا... مرنال پانڈے
ہندوستان میں اگر جمہوریت گزشتہ سات دہائیوں سے قائم ہے تو اس لیے کہ اس کے قائم رہنے میں اکثریت ہی نہیں بلکہ اقلیت اور حاشیہ کے کئی طبقات کا بھی ہاتھ ہے۔
موجودہ مرکزی حکومت کی غالباً سب سے باوقار اور اخلاقی شبیہ والی کابینہ وزیر سشما سوراج کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو نہایت بیہودہ تبصرے کیے جا رہے ہیں، ان سے بھی زیادہ اس غیر اخلاقی سلوک پر کسی بڑے بی جے پی لیڈر کا بیان نہ جاری ہونا حیران کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سشما سوراج کے ٹرولنگ کی وجہ ان کے ذریعہ ایک مسلم سے شادی کر اپنے پاسپورٹ میں اپنا نام نہ بدلنے (جس کا اسے حق حاصل ہے) والی خاتون کو ذلیل کرنے والے افسر کے خلاف قدم اٹھانا ہے۔
تقریباً اسی وقت (22 جون کو) 15 سال کے نوجوان جنید کی چلتی ریل گاڑی میں قتل کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ خبروں کے مطابق کچھ ساتھی مسافروں نے اقلیت ہونے کے باوجود کہنے پر سیٹ نہ چھوڑنے کی وجہ سے اسے چاقو سے زخمی کر اگلے اسٹیشن پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی بھیڑ کے ذریعہ محض شبہ کی بنیاد پر اقلیتوں، دلتوں پر حملے کم نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دادری سے آسام، گوڈا اور ہاپوڑ تک لگاتار ملک بھر میں تشدد کے ہر واقعہ کے بعد کچھ دن ہنگامہ مچتا ہے، لیکن جب سماج دشمن عناصر کئی وزرائے اعلیٰ، ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی اور پولس کی خاموش یا زبانی شہ پاتے ہیں تو ان کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔
رائے سینا ہل کے لوٹین زون میں رہنے والے سورما اخباروں یا ٹی وی مذاکروں میں چاہے جو کہیں، چند برس قبل سوشل میڈیا کی معرفت کچھ پارٹیوں نے جو بھسماسُری ٹرول گروپ اپوزیشن کو نیست و نابود کرنے کے لیے اتاری تھی، ان کے منھ میں خون لگ چکا ہے۔ اپنی شدید فرقہ وارانہ نظریات کے سبب وہ آج اپنی ساتھی پارٹیوں کے ہی کچھ سینئر اور معزز لیڈروں کو نشانہ بنانے پر آمادہ ہیں۔ ایسے عناصر کی تنقید کی جگہ ان کی مدد سے خطرناک افواہیں پھیلاتے ہوئے عام انتخابات تک گئوکشی بندی اور اقلیت بنام اکثریت جیسے ایشوز گرم رکھے گئے تو ملک کا اللہ ہی مالک ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت اگر گزشتہ سات دہائیوں سے قائم ہے تو اس لیے کہ اس کے قائم رہنے میں اکثریت ہی نہیں اقلیتوں اور حاشیے کے کئی طبقات کو بھی اپنی امیدیں اور مفادات پورے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں لگاتار بڑھتی خواندگی کے سبب آج صحیح سوچ کی اشاعت میں میڈیا کا زبردست کردار بنتا ہے۔ لیکن افسوس یہ کہ زیادہ تر میڈیا نے تو موقع پرستانہ خاموشی اختیار کر لی ہے۔ جو ایسے ماحول میں بھی انتباہ کر رہے ہیں اور تنقید کر رہے ہیں ان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں بی جے پی ممبر اسمبلی لال سنگھ نے کشمیر میں سینئر صحافی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے علاقے میں ساری میڈیا کو ہی دھمکا دیا اور کہا کہ وہ خاموش نہیں ہوئے تو ان کا حشر بھی مہلوک صحافی جیسا ہی ہوگا۔
اپنے یہاں کہاوت ہے ’نندک نیرے راکھیے آنگن کٹی چھوائے‘۔ یہ خاص طور پر حکمراں پارٹیوں پر نافذ ہوتی ہے۔ نہرو جی پر شنکر نے کارٹونی حملہ کیا تھا تو انھوں نے ان کو ہنس کر لکھا تھا ’کیپ اِٹ اَپ‘۔ میڈیا کو کوسنے کی جگہ اگر اقتدار میں انا اور خود کی تشہیر کی آواز کچھ کم ہی کھل کر سامنے آئیں تو ہی ممکن ہوتا ہے کہ صحیح اور مضبوط خبریں اوپر پہنچیں اور عوام کی تکلیف دور کی جا سکے۔ سابق وزیر مالیات ارون جیٹلی جی نے بھی اپنے تازہ بلاگ میں کہا ہے کہ تنقید سے منھ موڑنے والی حکومت کا عوام سے دور ہونا طے ہے۔
کشمیر میں چار سال قبل ہوئے اتحاد پر میڈیا کا ایک طبقہ تنقید کے باوجود کہتا رہا تھا کہ اقلیتوں کے درمیان مرکزی حکومت کے رخ کی جو شبیہ بنی ہے اس کو ختم کیے بغیر اتحاد ناکام ثابت ہوگا۔ آخر میں وہی ہوا۔ اس درمیان باہری دنیا میں بھی بادشاہت کے نئے قطب اور نیا ماحول بن رہا ہے جن میں ہم کو اپنے نئے دوست تلاش کرنے ہوں گے۔ ایسے وقت میں بیرون ملک کا دوست میڈیا سرکاروں کے کام آتا ہے، لیکن بیرون ملکی میڈیا میں ان دنوں ہمارے یہاں بڑھتی سماجی و اقتصادی دوری اور اقلیتوں و دلتوں کے خلاف موب لنچنگ لگاتار ہماری شبیہ کو داغدار بنا رہی ہے۔ اس شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے چند ایک سرکاری بیان یا یوگ کا بین الاقوامی پروگرام ناکافی ہے۔
یہاں ہم قارئین کے سامنے ایک زمانے میں پڑھی گئی روسی پالیسی کی داستان سناتے ہیں... ٹھٹھرن بھری شام کو گھر لوٹ رہے ایک ہمدرد کسان نے دیکھا کہ پالے سے اکڑا ایک کبوتر زمین پر تڑپ رہا ہے۔ کسان نے اسے اٹھا کر کوٹ میں لپیٹا، سہلا کر اس کی رکتی سانسوں کو لوٹایا۔ کبوتر نے آنکھیں کھول دیں۔ تبھی وہاں سے گایوں کا ایک ریوڑ گزرا جس میں سے ایک گائے نے تھوڑا رُک کر کسان کے آگے گوبر کا بڑا ڈھیر گرا دیا۔ کسان نے کبوتر کو گرما گرم گوبر کی ڈھیری میں ڈال کر راحت کی سانس لی کہ اب صبح دھوپ نکلنے تک بے چارہ پرندہ بچا رہے گا۔ کسان تو چلا گیا لیکن گوبر کی گرمی سے راحت محسوس کرتے کبوتر نے زوروں سے غٹر غوں کرنا شروع کر دیا۔ اس کی زوردار آواز سن کر پاس سے گزرتا دوسرا کسان رکا اور کبوتر کو پکا کر کھانے کے لیے اٹھا لے گیا۔
یہ کہانی تین نصیحت دیتی ہے۔ ایک، تم کو گوبر میں ڈالنے والا ہر مخلوق تمہارا دشمن نہیں ہوتا۔ دو، گوبر سے باہر نکالنے والا ہر مخلوق تمہارا دوست بھی نہیں ہوتا۔ اور تین، خود گوبر میں گردن تک پھنسا ہوا شخص کچھ زیادہ چہکنے سے باز آئے۔ مزید کیا کہا جائے، قارئین خود سمجھدار ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔