تبلیغی جماعت کی کوتاہی، جو مسلمانوں پر بھاری پڑے گی... ظفر آغا
میڈیا نے ابھی مسلم منافرت کا جو بیج بویا ہے تین چار سال میں بی جے پی اور آر ایس ایس اپنے پروپیگنڈہ سے اس کو باقاعدہ بہترین فصل کی شکل دے دیں گے، لیکن اب ہو بھی کیا سکتا ہے تیر تو کمان سے نکل چکا ہے
اس بات میں قطعاً کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ مرکز تبلیغی جماعت دہلی کے تعلق سے ہندوستانی میڈیا جس قسم کا بیہودہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے اس سے صاف اسلام دشمنی کی بو آتی ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ٹی وی اور باقی تمام میڈیا میں مرکز کے متعلق جو باتیں ہو رہی ہیں اس کے پیچھے ایک منظم سیاسی سازش ہے جس کے سرے بلاشبہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سازش کا بنیادی مقصد ہندوستانی مسلمان کو ہندو دشمن کی امیج دے کر سارے ملک میں مسلم منافرت کا بیج بونا ہے۔ بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی کی گجرات فسادات کے وقت سے سیاسی اور چناوی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی ایک غلطی کو بہت خوبصورتی سے ہندو دشمنی کا رنگ دیتے ہیں۔ پہلے میڈیا کیمپین کے ذریعہ اس ایک غلطی کا فائدہ اٹھا کر مسلم دشمنی کا بیج بویا جاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ہر ہندو کے ذہن کو مسلمان کے خلاف پراگندہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر چناوی کمپین کے وقت نریندر مودی باہر نکلتے ہیں اور خود کو 'ہندو انگ رکشک' یعنی ہندو محافظ کا رنگ و روپ دیتے ہیں۔ مسلمان سے بے وجہ خائف ہندو مودی کو اپنا محافظ مان کر بی جے پی کی گزشتہ پانچ سال کی تمام ناکامیوں کو بھول کر 'ہندو ہردے سمراٹ' یعنی ہندوؤں کے دلوں کی دھڑکن نریندر مودی کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈال دیتا ہے۔ اور اس طرح پانچ سالوں تک پھر بی جے پی کی مسلم منافرت کی سیاست کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ گودھرا میں ایک ٹرین حادثہ کو گجرات مسلم نسل کشی کا رنگ دے کر مودی نے 12 سال لگاتار بطور ہندو سمراٹ گجرات میں راج کیا۔ پھر ابھی 2019 میں بالاکوٹ کر مودی پھر ہندو انگ رکشک بن گئے اور پھر پانچ سالوں کے لیے مرکزی اقتدار پر قابض ہو گئے۔
اب ذرا مودی اور بی جے پی کی اس حکمت عملی کو مرکز دہلی میں پیش ہونے والے واقعہ کے تناظر میں سوچیے۔ اس وقت ساری دنیا کورونا وائرس کے قہر سے کانپ رہی ہے۔ یہی حال ہندوستان کا بھی ہے۔ ہر شخص کے سر پر کورونا وائرس سے موت کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جب چین، امریکہ، یورپ ، انگلینڈ، اٹلی اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اس مرض میں ایک دن میں ہزاروں افراد مر رہے ہیں تو پھر ہندوستان جیسے صحت کے معاملے میں انتہائی پسماندہ ملک میں اگر یہ مرض پھیل گیا تو لاکھوں افراد کی موت ہو سکتی ہے۔ ہر ہندوستانی کے دل و دماغ میں یہ خوف سمایا ہوا ہے۔ تبھی تو سارے ملک میں لاک ڈاؤن ہے اور سڑکوں پر ہُو کا عالم ہے۔ قہر خداوندی کے اس عذاب سے خائف ہر شخص اپنے اپنے گھروں سے باہر پیر نکالنے کو راضی نہیں۔ اس خوف زدہ ماحول میں یکایک یہ خبریں آتی ہے کہ مسلمانوں کی ایک مسجد سے تین ہزار سے زیادہ تبلیغی جماعت کے افراد پائے گئے جن میں سے کئی سو افراد کورونا پازیٹو ملے۔ پھر تین چار روز سے پورا میڈیا چیخ چیخ کر صرف یہ کہہ رہا ہے کہ آج اس شہر میں تین سو افراد تبلیغی جماعت کے الگ تھلگ کیے گئے تو کل دوسرے شہر سے ایسی ہی خبر آ رہی ہے۔ پھر ٹی وی پر ہونے والے مباحثے اس پورے واقعہ کو کورونا جہاد کا رنگ دے رہے ہیں۔ اب جب پہلے ہی لوگ کورونا وائرس سے خائف تھے تو کیا عام ہندو ذہن میں ٹی وی پروپیگنڈہ سے مسلمان کے تئیں شک پیدا نہیں ہو جائے گا۔ وہ یہی سوچے گا کہ بھائی جیسے اسامہ بن لادن اور خلیفہ ابو بکر کی جماعت کے لوگ دہشت گردی میں جہاد کے نام پر اپنی جان دے کر اپنے دشمنوں کو مارتے تھے، و یسے ہی تبلیغی جماعت والے کورونا جہاد کی آڑ میں ہندوؤں کو لاکھوں کی تعداد میں کورونا سے مارنے کے لیے خود جہاد کے نام پر اپنی جان کی بازی لگا کر سارے ہندوستان میں پھیل گئے۔
صاحب شک تو جانے دیجیے، پچھلے تین چار دنوں کے اندر میڈیا نے نفسیاتی طور پر عام ہندو ذہنوں میں یہ خیال گھر کروا دیا ہے۔ اب جب نفسیاتی طور پر مسلمان جہادی بن گیا اور ہندو دشمن طے ہو گیا تو ذرا سوچیے جب چناؤ کا وقت آئے گا تو میڈیا نے ابھی مسلم منافرت کا جو بیج بویا ہے، تین چار سال میں بی جے پی اور آر ایس ایس اپنے پروپیگنڈہ سے اس کو باقاعدہ بہترین فصل کی شکل دے دیں گے۔ اور پھر جب نریندر مودی چناؤ کے وقت کمپین کے لئے نکلیں گے تو اپنے جملوں اور ڈائیلاگ سے مرکز اور جماعت کو منٹوں میں اسامہ اور آئی ایس آئی ایس کا رنگ دے دیں گے۔ کم و بیش ہر ہندو ہر مسلمان کو جہادی سمجھ کر اور اس کے ڈر سے مودی حکومت کی ہر ناکامی کو بھول کر مودی کو بطور ہندو محافظ اپنا ووٹ ڈال دے گا۔ اور پھر این آر سی کے ذریعہ ہندوستانی مسلمان کو باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔
مرکز میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے میڈیا میں جو شور ہو رہا ہے اس کے پیچھے جو سازش ہے اس کا یہی مقصد ہے جو ابھی سے صاف نظر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور یہ بات بھی سہی ہے کہ خود سیکولر ہندو حضرات بھی اس سلسلے میں میڈیا کی مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن جناب میڈیا کو ہم جتنا چاہے برا بھلا کہہ لیں بات تو یہ ہے کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ چناؤ کے وقت اس مرکز سے نکلے ہوئے تیر سے نریندر مودی مسلم چھاتی کو نشانہ بنائے گا اور عام مسلمان مارا جائے گا، اور پھر اس کا جو حشر ہوگا اس کا اندازہ اب ہم اور آپ کو بخوبی ہے۔
اب ذرا اس بات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے کہ میڈیا اور بی جے پی کو کس نے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ملک بھر میں تین چار دنوں کے اندر اندر ساری مسلم قوم کو ہندو دشمن جہادی کا رنگ دے دے۔ کیا اس میں تبلیغی جماعت اور بالخصوص اس کے امیر مولانا سعد کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ صاحب پوری دنیا میں کورونا وائرس سے پھیلی وبا کا فروری سے ڈنکا بج رہا تھا۔ چین میں ہزاروں افراد کی ہلاکت ہو چکی تھی۔ بہت تیزی سے اس قہر کے قدم ہندوستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایسے ماحول میں تبلیغی جماعت کو اپنے دہلی مرکز میں ہزاروں افراد کو اکٹھا کرنے کا کوئی تُک تھا! کورونا کے سلسلے میں یہ میڈیکل ایڈوائس گلی گلی پھیل چکی تھی کہ کورونا وائرس منٹوں میں ایک شخص سے دوسرے شخص کو مہلک مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پھر بھی مولانا سعد دہلی میں ہونے والے اجتماع کو منسوخ نہیں کرتے ہیں۔ آخر جب لاک ڈاؤن لگ گیا تو مولانا نظام الدین پولس اسٹیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں کہ بھائی ہمارے افراد کو نکالیے۔ ملک میں پچھلے سالوں میں جو سیاسی ماحول ہے اس ماحول میں تبلیغی جماعت کی اس غلطی کا فائدہ بی جے پی کیوں کر نہ اٹھائے گی۔ اور اس بات کا اندازہ حضرت مولانا سعد اور پوری تبلیغی جماعت میں کسی کو نہیں تھا! یہ بات حلق سے اترنے والی نہیں ہے۔
لب و لباب یہ ہے کہ تبلیغی جماعت اور اس کے امیر مولانا سعد نے ہندوستانی مسلمان کو مروا دیا۔ یہ وہی غلطی ہے جو بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے جذباتی تحریک کھڑی کی تھی اور جس غلطی کے سبب بی جے پی ملک کی سب سے اہم پارٹی بن گئی۔ یہ اسی قسم کی غلطی ہے جو غلطی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے طلاق ثلاثہ کے تحفظ کے سلسلے میں کی تھی۔ اب مولانا سعد کی اس ایک غلطی سے ہندوستان کا تمام مسلمان جہادی اور بن لادن بن چکا ہے جس کا خمیازہ وہ اگلے چناؤ میں مودی کے ہاتھوں بھگتے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ علمائے دین کہے جانے والی قیادت پچھلے تیس چالیس برسوں میں مسلمانوں کے لیے عذاب بن چکی ہے تو غالباً غلط نہ ہوگا۔ پہلے بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور پرسنل لاء بورڈ نے مروایا اور اب تبلیغی جماعت وہی کردار ادا کر رہی ہے۔ جب تک ایسی غیر ذمہ دار قیادت سے نجات نہیں ملتی تب تک ہندوستانی مسلمان کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ اب ہم میڈیا اور بی جے پی کی کتنی ہی مذمت کرتے رہیں، کچھ نہیں ہوتا۔ سانپ تو نکل گیا، لاٹھی پیٹنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Apr 2020, 9:11 AM