6 دسمبر 1992، ملک اور مسلمان ... ظفر آغا
6 دسمبر 1992 کو ایک انگریزی میگزین کے لئے لکھا گیا یہ مضمون آج بھی اتنا ہی صادق ہے جیسے 25 برس قبل تھا۔
میں نے فروری 1986 کو پہلی بار بابری مسجد نام کی ایک مسجد کا ذکر سنا۔ اس وقت تک میرے ذہن میں ایودھیا محض ایک ہندو تیرتھ استھان تھا ۔ ایودھیا سے نزدیک الہ آباد شہر میں پیدا ہونے کی وجہ سے ’بھگوان رام‘ میری کلچرل وراثت کا حصہ تھے۔بچپن میں ہم لوگ دوستوں کے ساتھ رام لیلا کے خوب مزے لیا کرتے تھے ۔ اس لئے جب ایودھیا میں بابری مسجد کا ذکر سنا تو یہی خیال آیا کہ کسی چھوٹی موٹی یوں ہی کسی پرانی مسجد کا معاملہ ہوگا۔لیکن اس معاملے میں اتنا غلط ثابت ہوں گا اس وقت مجھ کو اندازہ ہی نہیں تھا۔
فروری 1986 میں ہی پہلی بار خود ایودھیا جاکر بابری مسجد کو دیکھا ۔ میں وہاں با حیثیت ایک صحافی گیا تھا ۔ بابری مسجد کا تالا کھل چکا تھا اور چہار سو ہندو ۔مسلم فساد چل رہے تھے۔ میں خود بے حد ٹینشن میں تھا۔ دہلی میں خبریں تھیں کی پی اے سی نے نیہتھے مسلمانوں پر گولی چلائی، لیکن جب میں ایودھیا پہنچا تو میری الجھن کچھ کم ہو گئی۔بابری مسجد کو دیکھ کر مجھے عجیب حیرت کا احساس ہوا۔ مندروں سے گھری وہ مسجد ایک جزیرہ سی لگی۔ لیکن جب میں اپنے ماتھے پر تلک لگائے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہوا تو جیسے مجھ پر بجلی سی گر پڑی ۔ جہاں پیش امام کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے تھے عین اسی مقام پر’ رام للّا‘ کی مورتی رکھی تھی۔
لیکن جب میں باہر نکلا اس وقت تک میری الجھن کسی حد تک ختم ہو گئی تھی۔ میرے ذہن میں یکا یک یہ خیال کوندا کی مسلمانوں کو یہ مسجد ہندوؤں کو خود سونپ دینی چاہئے۔ اس کے دو اسباب تھے۔ ایک یہ کہ اس معاملے میں تنازعہ بہت بڑھ سکتا ہے دوسرے ، وی ایچ پی اس معاملے میں جیسی نعرے بازی کر رہی تھی اس سے اور فسادات بڑھنے کا بھی خطرہ تھا۔ راتوں رات ہندوستانی مسلمان ’بابر کی اولاد‘ بن گیا ۔ اب میرا محض ہندوستانی ہونا میرے لئے کافی نہیں رہ گیا تھا ۔ میں نے ایسی بہت تقریریں سنیں جس میں ہندوؤں کو گھڑی گھڑی یاد دلایا گیا کہ مسلمانوں نے کیسے ہند و مند ر مسمار کئے۔ یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ یاتو مسجد دو نہیں تو پاکستان جاؤ۔ مجھ کو یہ بات بری لگی کہ یکا یک رام اب صرف ہندوؤں کی وراثت ہو کر رہ گئے ۔ یہ بھی برا لگ رہا تھا کہ اس معاملے کو سڑکوں پر طے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کیا یہ بات آپسی بات۔چیت سے نہیں ہو سکتی تھی!
میں نے مسلمانوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ امن و امان بر قرار رکھنے کے لئے مسجد ان کو دے دیں ۔ لیکن جب بھی یہ میں کہتا تو مسلمان پوچھتے کہ بھائی وی ایچ پی جو تین ہزار اور مسجد یں مانگ رہی ہے ان کا کیا ہوگا! آخر کاشی اور متھرا میں کیا ہوگا! اسی کے ساتھ امام بخاری اور سید شہاب الدین راتوں رات مسلم لیڈر بن بیٹھے۔ مجھ کو ان کی قیادت نا پسند تھی ۔ میں نے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی ، ایسی قیادت مشکلیں اور بڑھا دیں گی۔ لیکن وی ایچ پی کے نعروں اور اوما بھارتی ، اشوک سنگھل اور سادھوی رتمبھرا جیسوں کی تقریروں کے بیچ میری آواز ڈوبتی چلی گئی۔اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ بھی بڑھتا چلا گیا ۔
دیکھتے دیکھتے بابری مسجد کی سیاست ملک پر چھا گئی۔ سنگھ برادری اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی ایک دوسرے کے جانی حریف نظر آنے لگے ۔ سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو چاروں طرف پھیلے فساد میں ووٹ بینک نظر آنے لگااور چاروں طرف دنگوں کی آگ بھڑک اٹھی ۔ میرٹھ ، ملیانہ، مرادآباد اور بھا گلپور دنگوں سے جل رہے تھے ۔ کانگریس کو لگ رہا تھا کہ ’ شیلا نیاس ‘ کے بعد ہندواس کے ساتھ آرہا ہے اور ادھر وی پی سنگھ ، امام بخاری اور شہاب الدین جیسوں کی ہمدردی میں لگے تھے۔ عام مسلمان زبر دست عدم تحفظ کا شکار تھا۔ پوری مسلم قوم ایک شکنجے میں جکڑ گئی تھی جیسے جیسے فساد پھیل رہے تھے ویسے ویسے مسلمان خوف کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔
ادھر اتر پردیش میں پی اے سی کا رویہ بہت مسلم مخالف تھا۔جون 1987 میں میں اپنے وطن اپنے والد کی برسی پر گیا تھا اور بس وہاں ایکدم سے فساد بھڑک اٹھا۔ مسلمانوں کی پی اے سی سے جھڑپیں ہو ئیں ۔ ان کو ڈر تھا کہ الہ آباد میں بھی کہیں ملیانہ نہ دوہرا دیا جائے۔ ظاہر ہے پھر پی اے سی نے مسلم بستیوں پر چھاپے مارے ۔ کچھ پی اے سی والے میرے گھر میں بھی در آئے ۔ وہ مجھے اور میرے دوسرے جوان اہل خانہ کو زبر دستی اٹھا کر کوتوالی لے آئے۔ میں نے پریس کارڈ دکھایا جس کو جھڑک دیا گیا۔ جون کی اس گرمی میں مجھ کو سارے دن زمین پر بیٹھایا گیا۔ اگر کسی نے ہلنے کی بھی کوشش کی تو کہا گیا: سالے پاکستانی، ہلنا مت۔۔۔ اس رات میں نے پھر اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیا۔ ان حالات میں بھی مجھے پورا یقین تھا کہ حالات سدھر ہی جائیں گیں۔
میں پھر غلط ثابت ہوا۔ جلد ہی یاترائیں شروع ہو گئیں ۔ سیاستدان، ملاّ ، سادھو سنت سب تنگ نظری کا ثبوت دیتے رہے۔ اس ماحول میں سن 1989 اور سن 1991 کے چناؤ ’ہمارے اور ان کے‘ درمیان ایک جنگ بن گئے۔ کھلے ذہن کے میرے مسلم دوستوں تک نے میری فیاض دلی پر طنز کرنا شروع کر دیا ۔ وہ طنز کرتے کہ تمہاری چلی تو اس ملک میں مسلم تشخص ہی مٹ جائے گا۔ ایسی فضا میں چناؤ ہوئے تو وہ بھی ایک جنگ بن گئے۔
آخر بی جے پی اتر پردیش میں بر سر اقتدار آئی۔ انہوں نے تو قسم کھا رکھی تھی کہ’مند ر وہیں بنائیں گیں‘۔ اس کے باوجود میں اپنی ضد پر اڑا رہا کہ وشوہندو پریشد بھی مسجد نہیں ڈھائے گی۔ مجھے ہندوؤں کی فراخ دلی پر یقین تھا ۔ جب میرے لوگوں نے میرا مذاق اڑایا تو میں نے یہی کہا کہ ہندوستان ، ہندو پاکستان نہیں بن سکتا ہے۔ حد یہ کہ 6 دسمبر سے محض دو روز قبل میں نے اپنے ایڈیٹر سے بے حد گرمجوشی سے کہا کہ ارے سب امن ومان سے گزر جائے گا اور مسجد کو آنچ نہیں آئے گی۔
ظاہر ہے کہ جب مجھے پتہ چلا کہ بابری مسجد ڈھا دی گئی تو میں سَن ہو گیا اور مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں خاصا وقت لگا۔ جب میں نے ایک پرانی بوسیدہ مسجد کا ڈھایا ہوا ملبہ ٹیلی ویژن پر خوددیکھا تو میری آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ نکلے۔ اور تب مجھے اندازہ ہوا کہ کیسے ایودھیا کی ایک پرانی اور بوسیدہ مسجد کروڑں ہندوستانی مسلمانوں کی تشخص کی علامت بن گئی تھی۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Dec 2017, 9:58 PM