بدتر حکمرانی کے 4 سال: مودی حکومت میں تشدد کا بول بالا
مودی حکومت نے کلچر کو تماشے کی چیز بنا کر رکھ دیا ہے جو نہ صرف ہندو نظریات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ہندوستانی فنون اور اظہارِ رائے سے متعلق نظریہ کے بھی خلاف ہے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے انتخابی جلسہ کے دوران اس کنڑ مصور کا تذکرہ کیا جس نے ہنومان کا خوفناک نقشہ بنایا تھا۔ وہ تصویر کافی مقبول ہو چکی ہے لیکن اسے شاید ہی اہمیت کے حامل فن کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔
اب یہ خبر آئی کہ مہاراشٹر کے ایک مجسمہ ساز کو للت کلا اکادمی کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ اگر ان کی کوئی پہچان ہے تو وہ اس بات میں ہے کہ انھوں نے شیواجی اور ویر ساورکر کے کئی مجسمے بنائے ہیں اور کسی نے فن کی دنیا میں ان کا نام پہلے نہیں سنا ہے۔
ان چیزوں سے فن کے بارے میں نریندر مودی کے نظریات کا پتہ چلتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مودی حکومت کے 4 سال کم و بیش ان عوامی مقامات کی بربادی یا زوال کے سال ہیں جنھیں فنون کو ترقی دینے، انھیں حمایت اور اعزاز دینے، روایتوں کے تحفظ اور تعمیریت کو آگے بڑھانے اور کثرت پسندی کو مضبوط کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
عموماً بین الاقوامی اسٹیج پر غیر ملکی استعمال کے لیے جو بھی باتیں کی جاتی ہوں، مودی حکومت منظم طور پر کثرت پسندی کو ختم کرنے، دوسری آزادیوں کے ساتھ فنی آزادی کو کنٹرول کرنے، نظریاتی طور پر مداخلت کرنے، تعمیراتی اور تصورات کے معیار کو حاشیے پر ڈھکیلنے اور آخر کار کلچر کے عوامی انسٹی ٹیوشنل شکل کو غیر متعلقہ بنا کر ختم کرنے میں لگ گئی ہے۔
اس نے بڑے پیمانے پر نظریاتی اخلاص اور دوئم درجے کی صلاحیت کو فروغ دینے کے علاوہ ثقافت کے شعبہ میں کوئی خاص پیش قدمی نہیں کی ہے۔
یہاں جن چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ثقافت کی جارحانہ سمجھ سے پیدا ہوئی ہیں جسے بالادستی والے نئے ہندوتوا کے طور پر آر ایس ایس نے نظریاتی جامہ پہنایا، اس پر عمل کیا اور اسے قائم کیا۔ اس نے ثقافت کو تماشے کی ایک شئے بنا دیا جو زیادہ سے زیادہ یکسانیت کو فروغ دے سکتی ہے اور جو نہ صرف ہندو نظریات کے قیمتی عناصر اور پریکٹس کے خلاف ہے بلکہ ہندوستانی فنون کے فلسفہ اور اظہار رائے، طرز اور شکل، خوبصورتی، چمکیلے اور اہم کثرت پسندی کے نظریے کے بھی خلاف ہے۔
ہندوستانی روایت اور ثقافت کی بہتری کے نام پر مودی حکومت نے تعمیری اور تصوراتی، نااتفاقی اور بحث کو کمزور کر دیا ہے جسے اس نے حقیقت میں دبانے کی کوشش کی اور غیر ضروری یکسانیت کی طرف ڈھکیل دیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے یا تو سیدھے طور پر یا پھر خاموشی کے ساتھ چالاکی پر مبنی ملی بھگت سے پہننے، کھانے جیسی چیزوں کے کنٹرول کے ذریعہ ثقافتی رویہ کے معمولی رسموں کو بھی بڑا بنا دیا ہے۔ ان کوششوں کے نتیجہ کار ایک بے حد تقسیم والا سماج بنا اور اس کے کچھ عنصر غیر سزا والی تشدد اور نفرتی حملے میں شامل رہے۔ زندگی، دنیا اور وجود کا عظیم نظریہ جسے ہندوواد نے صدیوں تک بنائے رکھا اسے ایک محدود نظریہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور ہندوستانیوں کے ایک بڑے حصے سے ’دوسروں‘ کی طرح سلوک کرنا روزانہ کی چیز ہو گئی ہے۔ تشدد تیزی سے نیا شہری انداز بن چکا ہے۔ یہ پرتشدد رویہ ہندوستانی ثقافت کے اچھے اقدار کے خلاف ہے۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مودی حکومت کے گزشتہ 4 سال میں کسی نئے ادارہ کو قائم نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ایسا دور رہا ہے جس میں قیمتی اداروں کو حسد کی وجہ سے تباہ کر دیا گیا اور ایسا کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا جو اہمیت کا حامل ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 May 2018, 3:58 AM