نسائی جذبات کی ترجمانی کرنے والی اولین شاعرہ- زہرا نگاہ
زہرا نگاہ کی تعلیم حیدر آباد دکن اور کراچی میں ہوئی۔ یہ گھر کے ادبی ماحول کا ہی اثر تھا کہ زہرا نگاہ محض گیارہ برس کی عمر سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں
بیسویں صدی میں جن خواتین نے اپنی شاعری کے ذریعے نسائی جذبات کی ترجمانی کی ان میں دو نام قابل ذکر ہیں، پہلا ادا جعفری کا اور دوسرا زہرا نگاہ کا۔ ان دونوں نے اس وقت شاعری شروع کی جب خواتین کا کچھ لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب کسی شاعرہ کا کلام رسالہ 'نقوش' میں شائع ہوتا تھا تو شاعرہ کے نام کے ساتھ کوسین میں ‘طوائف’ لکھا جاتا تھا۔ ان حالات میں کسی لڑکی کا شاعری کرنا اور اپنی شاعری کو کہیں چھپوانا دل گردے کا کام تھا۔ زہرا نگاہ کو شعر و ادب کا ماحول بچپن سے ہی میسر آیا۔ ان کے والدین اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گھر میں پرورش پانے والوں نے ادب، صحافت، ڈرامہ نگاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ زہرا نگاہ کی ادبی خدمات کا تفصیل سے ذکر کرنے سے پہلے ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور خاندانی پس منظر کا معلوم ہونا ضروری ہے۔
زہرا نگاہ کا حقیقی نام فاطمہ زہرا اور قلمی نام زہرا نگاہ ہے۔ ان کی ولادت 14 مئی 1937 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ ان کے والد قمر مقصود بدایوں سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے تلاش معاش کے سلسلہ میں حیدرآباد دکن کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ تقسیم وطن کے بعد یہ خاندان مستقل طور پر پاکستان کے شہر کراچی میں آباد ہو گیا تھا۔ زہرا نگاہ کی تعلیم حیدرآباد دکن اور کراچی میں ہوئی۔ یہ گھر کے ادبی ماحول کا ہی اثر تھا کہ وہ محض گیارہ برس کی عمر سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں۔ انہوں نے اپنی پہلی نظم 'گڑیا گڈے کی شادی' لکھی تھی۔ جسے پڑھ کر ان کی استانی نے انہیں باقاعدہ شاعری کرنے اور مشاعروں میں شرکت کا مشورہ دیا تھا۔ شروع میں زہرا نے اپنا کلام والد کو دکھایا جو ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ پندرہ برس کی عمر میں ہی زہرا نگاہ نے اپنی خوبصورت آواز اور انداز کی وجہ سے مشاعروں میں دھوم مچانا شروع کر دی تھی۔ کم عمری میں ان کی پختہ کلامی کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو گمان ہونے لگا تھا کہ وہ کسی کہنہ مشق شاعر کا کلام پڑھتی ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ میں ہی لوگوں کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔ زہرا نگاہ نے جگر مراد آبادی سے اپنے کلام پر اصلاح لینے کی کوشش کی تھی لیکن جگر مراد آبادی نے یہ کہتے ہوئے اصلاح کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ’تمہارا ذوقِ مستحسن خود ہی تمہارے کلام کی اصلاح کر دے گا۔‘‘
زہرا نگاہ جس خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ 'ایں خانہ تمام آفتاب است' تو غلط نہیں ہوگا۔ مشہور ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا، مشہور براڈ کاسٹر اور محققہ سارہ نقوی ان کی بہنیں تھیں۔ ایک بہن زبیدہ طارق پاکستان کی پہلی معروف کک تھیں جن کے شوز ٹیلی ویزن پر آتے تھے۔ مشہور مزاح نگار، اسکرپٹ رائٹر، ٹی وی میزبان اور مصور انور مقصود ان کے بھائی ہیں۔ ایک بھائی احمد مقصود اعلیٰ سرکاری عہدیدار رہے۔
زہرا نگاہ نے اپنی ذاتی زندگی کو مخفی رکھا ہے اس لئے ان کی شخصیت اور حالات زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں ہیں۔ حالانکہ انہوں نے خودنوشت تحریر کی ہے لیکن اس کو شائع نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ زندگی کے تجربات ہیں جو انہوں نے اپنے بچوں کے لئے قلم بند کئے ہیں اور وہ اسے پڑھنے کے بعد نذر آتش کر دیں گے۔‘
زہرا نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا، مگر بعد میں نظم کی طرف مائل ہو گئیں اور نظم گوئی میں اپنا ایک خاص مقام بنایا۔ ان کی متعدد نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔ ان کی نظم گوئی کا قصیدہ فیض احمد فیض جیسے شاعر نے پڑھا ہے۔ فیض کہتے ہیں، ’’ان کی منظومات میں نہ جدیدیت کے غیر شاعرانہ جذبات کا کوئی پرتو ہے اور نہ رومانیت کی شاعرانہ آرائش پسندی کا کوئی دخل ہے۔ روایتی نقش و نگار اور آرائش رنگ و روغن کا سہارا لئے بغیر دل لگتا ہوا شعر کہنا بہت دل گردے کا کام ہے۔‘‘
عورت کے جذبات کی ترجمانی زہرا نگاہ کی شاعری کی امتیازی خصوصیت ہے۔ ان کی اکثر نظموں کا موضوع عورت، اس کی حسیت، اس کی ذہنی الجھنیں اور اس کے مسائل ہیں۔ زہرا نگاہ کے یہاں روایتی مشرقی عورت کے مختلف رنگ و روپ موجود ہیں۔
بھرا گھر میرا اک خالی مکاں ہے
کہیں کچھ ہے تو احساس زیاں ہے
۔۔
یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا
گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا
ہر جذبۂ معصوم کی لگ جاتی ہے بولی
کہنے کو خریدار پرایا نہیں ہوتا
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی
پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔
'میں بچ گئی ماں' ان کی ایسی نظم ہے جو ایک عورت ہی لکھ سکتی ہے:
میں بچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں
ترے کچے لہو کی مہندی
مرے پور پور میں رچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں
گر میرے نقش ابھر آتے
وہ پھر بھی لہو سے بھر جاتے
مری آنکھیں روشن ہو جاتی تو
تیزاب کا سرمہ لگ جاتا
سٹے وٹے میں بٹ جاتی
بے کاری میں کام آ جاتی
ہر خواب ادھورا رہ جاتا
مرا قد جو تھوڑا سا بڑھتا
مرے باپ کا قد چھوٹا پڑتا
مری چنری سر سے ڈھلک جاتی
مرے بھائی کی پگڑی گر جاتی
تری لوری سننے سے پہلے
اپنی نیند میں سو گئی ماں
انجان نگر سے آئی تھی
انجان نگر میں کھو گئی ماں
میں بچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں
زہرا نگاہ نے گھر کے محدود آنگن سے لے کر بین الاقوامی حدود تک بہت سے موضوعات پر لکھا۔ معاشرے کی افراتفری، لاقانونیت، ظلم و بربریت کے درمیان انسان کی بے چارگی پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا۔ افراتفری کے ماحول میں انسان کا عرصہ حیات تنگ ہوتا دیکھ کر انہوں نے 'سنا ہے' کے عنوان سے ایک ایسی نظم کہی جسے ان کی شاہکار نظم کہا جا سکتا ہے۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر
زہرا نگاہ کی نظم ’سمجھوتہ‘ میں ایک ایسی عورت نظر آتی ہے جو معاشرے کے استحصال کے دوران قدم قدم پر سمجھوتے کرتے ہوئے زندگی سے نباہ کئے جا رہی ہے۔
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں
کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہوگے!
نہ خوش ہوگے نہ پژمردہ رہوگے
اسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بچھا لیں گے تو کھل اٹھے گا آنگن
اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن
زہرا نگاہ کی غزلوں کا آہنگ بھی دیگر شاعرات سے جدا ہے۔ لیکن اس آہنگ سے بھی عورت کے جذبات و احساسات ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں نجی جذبات و احساست بھی ہیں، اجتماعی مصائب کا بیان بھی اور عشق کی واردات بھی ہے۔ عورت کی بے بسی بھی ہے اور گھٹن کی لہر بھی لیکن انہوں نے اپنے لہجے کی انفرادیت کو کبھی قربان نہیں کیا۔
شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ
پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا
۔۔۔
بڑے سکون سے کاٹا عذاب تنہائی
میں اپنے آپ سے مدت کے بعد مل پائی
۔۔۔۔
خطائیں دونوں کی یکساں تھیں پر تعجب ہے
کسی کو داد ملی اور کسی کو رسوائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی اک لفظ کے سو سو معانی
کبھی ساری کہانی ان کہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
ہنستی بستی راہوں کا خوش باش مسافر
روزی کی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے
دفتر منصب دونوں ذہن کو کھا لیتے ہیں
گھر والوں کی قسمت میں تن رہ جاتا ہے
دیکھتے دیکھتے اک گھر کے رہنے والے
اپنے اپنے خانوں میں بٹ جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اتنی کہنہ مشق شاعرہ ہونے کے باوجود زہرا نگاہ نے بہت کم لکھا لیکن جتنا بھی لکھا قیمتی لکھا اور اسے بہت سراہا گیا۔ ان کے کلام کے جو مجموعات شائع ہوئے وہ ہیں ’شام کا پہلا تارا‘، ’وقت‘ اور ’فراق‘ ہیں۔ ’لفظ لفظ‘ کے عنوان سے ان کی کلیات بھی شائع ہوئی ہے۔ وہ ابھی بقید حیات ہیں اور قلمی اور فکری طور پر سرگرم ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔