منفرد لہجے کا نعت گو شاعر رؤف امروہوی... جمال عباس فہمی
رسولؐ اللہ کے عشق کا ایک طوفان ہے جس میں رؤف امروہوی غلطاں نظر آتے ہیں۔ نام و نمود سے بے پروا رؤف امروہوی 16 دسمبر1986 کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔
امروہہ ادیبوں شاعروں، دانشوروں، فنکاروں اور روحانی بزرگوں کی بستی ہے۔ دور دور اس کا شہرہ اسی حوالے سے ہے۔ یہ بستی مصحفی کا وطن بھی ہے اور امام غزل میر تقی میر کے استاد سعادت حسن کی جائے پیدائش بھی۔ شاہ ولایت اور شاہ نصر الدین جیسے صاحبان کرامت ولیوں نے بھی سکونت کے لئے اسی سرزمین کو پسند کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کے دست راست مشتاق حسین زبیری المعروف وقار الملک کا مدفن بھی امروہہ کی ہی سر زمین ہے۔ طنز و مزاح کے شاعر شہباز امروہوی ہوں یا فرزدق ہند شمیم امروہوی اورجدت طراز مرثیہ گو نسیم امروہوی شاعر اور صحافی رئیس امروہوی ہوں یا جون ایلیا، مشہور زمانہ خطاط، آرٹسٹ اور شاعر صادقین ہوں یا فلمساز کمال امروہوی۔
یہ بھی پڑھیں : حسرت موہانی: مجاہد آزادی اور شاعر
امروہہ نے ہر فن لطیفہ کے دامن کو گہر ہائے آبدار دیئے ہیں۔ اسی امروہہ نے نعت گوئی کی دنیا کو رؤف امروہوی جیسا پر اثر لہجے کا شاعر بھی دیا۔ جس کی نعتیں پیغمبر اکرمؐ کی ثنا اور مدح کا ایسا جذباتی شاہکار ہیں جنہیں سن کر کوئی بھی عاشق رسولؐ وجد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رؤف امروہوی کی نعتیں عشق رسولؐ سے سرشار، ہجر پیغمبر اکرمؐ کی تڑپ اور بے قراری سے لبریز ہوتی ہیں۔ رؤف امروہوی کی شاعری کی جذباتی اور روحانی کیفیت کا اندازہ لگانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان کی زندگی کے مختلف پہلؤوں کا جائزہ لیا جائے۔
امروہہ کے محلہ صدو میں مغلوں کا ایک خاندان آباد ہے۔ اسی خاندان کے مرزا شفیع اللہ بیگ کے یہاں 1894 میں ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ نام رکھا گیا عبد الرؤف۔ عبدالروؤف کی ابتدائی تعلیم عام مسلمان بچوں کی طرح ہوئی۔ اردو عربی اور فارسی پڑھی۔ قرآن حفظ کیا، دنیاوی تعلیم نور المدارس اور امام المدارس میں حاصل کی۔ 1915 میں انٹرینس کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچے جو اس وقت ایم اے او کالج کی شکل میں موجود تھا۔ دوران تعلیم گھوڑ سواری کے دوران ایک حادثے سے دو چار ہوئے اور کئی ماہ تک صاحب فراش رہے۔ داہنی ٹانگ میں لنگ بھی آگیا۔ حاثے کی وجہ سے تعلیم متاثر ہوئی۔ کسی طرح تعلیم مکمل کرکے امروہہ آئے اور 1920 میں اسی امام المدارس میں انگریزی اور ریاضی پڑھانے پر مامور ہوئے، جس میں انہوں نے خود تعلیم حاصل کی تھی۔ 39 برس بحسن خوبی درسی خدمات انجام دینے کے بعد 1959 میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔
رؤف امروہوی کی شاعرانہ صلاحیت کا لوہا اس لئے بھی ماننا پڑتا ہے کہ ان کے اندر تخلیق شعر کی صلاحیت قدرت کی ودیعت کردہ تھی۔ جہاں تک خاندانی پس منظر اور ماحول کا معاملہ ہے تو رؤف امروہوی سے پہلے ان کے خاندان میں کوئی شاعر نہیں ہوا تھا۔ رؤف امروہوی کے شعری ذوق کی نشو نما میں فارسی کی تعلیم کا بہت بڑا دخل ہے۔ امروہہ میں دینی تعلیم کے دوران رؤف امروہوی کو فارسی زبان کا چسکا ایسا لگا کہ شیخ سعدی اور حافظ شیرازی کا بہت سا کلام حفظ ہوگیا تھا۔ بیشتر شعرا کی طرح رؤف کی شاعری کے سفر کا آغاز بھی 1915 میں غزل سے ہی ہوا۔ مشاعرے کے اسٹیج پر انہیں جگر مراد آبادی لیکر گئے۔
جگر مراد آبادی سے رؤف کی ملاقات نگینہ میں ہوئی تھی۔ جگر مراد آبادی اور رؤف امروہوی کی ملاقات کا محرک رؤف کی ایک غزل بنی جو حافظ شیرازی کے دیوان کی پشت پر لکھی ہوئی تھی۔ جس کمرے میں رؤف اور جگر مراد آبادی قیام پذیر تھے اسی کمرے کی میز پر رؤف نے حافظ شیرازی کا دیوان رکھ دیا تھا۔ جگر مراد آبادی نے وہ دیوان اٹھایا اور رؤف کی غزل پڑھی۔ اس کی تعریف کی۔ جگر مراد آبادی نے اصرار کیا کہ وہ بھی مشاعرے میں چلیں۔ رؤف امروہوی نے جگر مراد آبادی کو اپنا کلام بغرض اصلاح دکھایا۔ جگر نے شاعری کے تعلق سے کچھ نصیحتیں کرکے سند دیدی کہ تمہیں کسی استاد کی ضروت نہیں ہے تم پیدائشی شاعر ہو۔
جس رؤف کے خاندان میں اس سے پہلے کوئی شاعر نہیں ہوا تھا قدرت خدا کی دیکھئے کہ اسی رؤف کے تین فرزند شاعر ہیں۔ اور ان سب کے مجموعہ ہائے کلام شائع ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑے فرزند احمد حسین سیفی کے دو مجموعے۔ ان سے چھوٹے فرزند حامد حسین کے تین مجموعے اور ان سے چھوٹے فرزند مرزا ساجد کے پانچ شعری مجموعے اور مضامین کا ایک مجموعہ منظر عام پر آچکے ہیں۔ رؤف امروہوی کے کلام کے تین مجموعے الگ الگ وقتوں میں شائع ہوئے۔ 'لخلخہ محامد' اور 'کوثر رحمت' حمد نعت اور منقبت کے مجموعے ہیں اور 'گل رنگ تخیل' کے عنوان سے غزلیات کا مجموعہ شائع ہوا۔
شکاگو امریکہ میں مقیم رؤف امروہوی کے فرزند حامد حسین نے اپنے والد کے کلام کے تینوں مجموعات کو یکجا کرکے 'سرمایہ رؤف' کے عنوان سے شائع کر دیا ہے۔ رؤف امروہوی نے اپنے حالات زندگی 'اپنی زباں سے میں' کے عنوان سے بھی تحریر کئے تھے۔ 'سرمایہ رؤف' میں اس کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : آنحضرتؐ کا وجود مبارک اتحاد کا بہترین محور... نواب علی اختر
رؤف امروہوی کی شاعری کی زبان نہایت سادہ اور سسلیس ہے۔ وہ غزل کہیں یا حمد، نعت منقبت یا مخمس زبان کی سادگی شگفتی اور برجستگی برقرار رہتی ہے۔ انداز ایسا ہے کہ بات سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ نعت میں عشق رسولؐ کے جذبات کا ایک دریا ہے جو موجزن نظر آتا ہے۔ رؤف کے یہاں بلا کا سوز و گداز ہے۔ مدینے کے دیدار کی تڑپ ہے۔ روضہ رسولؐ کے دیکھنے کی رؤف امروہوی کی تڑپ ایسی تھی کہ ان کے سفر عشق کا بندو بست غیب سے ہوا۔ مسجد نبوی میں امروہہ کے ایک شخص کو بشارت ہوئی کہ رؤف کو اپنے اخراجات پر شہر مقدس بلواؤ۔ وہ شخص رؤف امروہوی سے واقف بھی نہیں تھا اس نےعالم رویا میں دریافت کیا کون رؤف تو بتایا گیا کہ سیفی کے والد، وہ شخص رؤف امروہوی کے بڑے فرزند احمد حسین سیفی سے واقف تھا۔ اس نے فوری طور پر امروہہ میں اپنے رشتے داروں کو اس بشارت سے آگاہ کیا اور سفر کے اخراجات روانہ کئے اور اس طرح 1977 میں رؤف امروہوی کو آقائے نامدار کی طلبی پر روضے کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
رسولؐ کے روضے کے دیدار کی تڑپ، عشق رسولؐ کی کیفیت اور جذبات کی پاکیزگی رؤف امروہوی کے ان اشعار سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
پائے بوسی کی کیوں ہوس نہ کرے
کیا رؤف آپ کا غلام نہیں
.........
یہ سمجھ کر مجھ کو بلوا لیجئے
خار بھی ہوتے ہیں ہر گلزار میں
.........
جذبہ الفت نہ ذوق بندگی
لاؤں کیا میں آپ کی سرکار میں
.........
پھر تمنائے مدینہ دل کو تڑپانے لگی
پھر وہی سودا، وہی حسرت، وہی ارمان ہے
.........
پھر مدینہ حاضری کی آرزو بار دگر
پھر یہ حسرت میری ساری حسرتوں کی جان ہے
.........
ساقی مرا سوال بہت مختصر سا ہے
بس ایک جام شربت دیدار مصطفیٰؐ
.........
مجھے حق کے دیدار کی آرزو ہے
در احمد مجتبیٰؐ پوچھتا ہوں
.........
کعبہ دل ہو جائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
سر ہو مرا اور پائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
.........
مرنے تری گلی میں نہ آؤں تو کیا کروں
بگڑی کو اپنی یوں نہ بناؤں تو کیا کروں
.........
تم ہی تو میرے درد کے اک چارہ ساز ہو
پھر تم کو حال دل نہ سناؤں تو کیا کروں
.........
لطف و کرم کیجئے طالب دیدار ہوں
میری بھی سن لجئے بندہ سرکار ہوں
.........
مرا حال نبی کو بتا دیتی مرا نامہ شوق سنا دیتی
مرا اتنا سا کام بھی باد صبا نہ ہوا نہ ہوا نہ ہوا
.........
کبھی حاصل مجھے بھی یہ شرف ہو
کبھی میں بھی ہوں مہمان مدینہ
.........
رؤف زار کی بھی عرض سن لو
ہے اک مدت سے ارمان مدینہ
.........
بگڑیاں سارے زمانے کی بنائیں آپ نے
یا رسولؐ اللہ میرا بھی مقدر دیکھتے
.........
جالیوں کو تھام کر کچھ ہم بھی کرتے عرض حال
ہم بھی اک دن بخت اپنا آزما کر دیکھتے
.........
بہت دن ہوئے اشک حسرت بہاتے
مگر اب جدائی کا یارا نہیں ہے
.........
زندگانی کا نہیں کچھ اعتبار
دیکھئے صورت دکھاتے جائیے
.........
وہ ترس کھا کے مدینے مجھے بلوا لیتے
قاصد اس طرح مرا حال سنایا ہوتا
.........
میرے مولا مجھے آنکھیں جو عنایت کی تھیں
اپنے محبوب کا روضہ بھی دکھایا ہوتا
.........
سب کی بگڑی کو بنایا آپ نے
میری بگڑی بھی بناتے جائیے
.........
مرتا ہوا فرقت میں جہاں چھوڑ گئے تھے
اے جان تمنا یہ رؤف اب بھی وہیں ہے
یہ بھی پڑھیں : پرینکا گاندھی نے یو پی کا ماحول گرم کر دیا... سہیل انجم
الغرض کس کس شعر کا ذکر کیا جائے۔ رسولؐ اللہ کے عشق کا ایک طوفان ہے جس میں رؤف امروہوی غلطاں نظر آتے ہیں۔ نام و نمود سے بے پروا رؤف امروہوی 16 دسمبر1986 کو دار فانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کی نعتیں عاشقان رسولؐ کے دلوں کو ہمیشہ برماتی رہیں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔