ندا فاضلی: سورداس کی نظموں سے شاعر بننے کی ترغیب حاصل ہوئی

اردو کے مشہور شاعر اور فلمی نغمہ نگار ندا فاضلی نے سورداس کی ایک نظم سے متاثر ہوکر شاعر بننے کا فیصلہ کیا تھا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

12 اکتوبر یوم پیدائش کے موقع پر

یہ اس وقت کی بات ہے جب تقسیم کے بعد ان کا پورا کنبہ ہندوستان سے پاکستان منتقل ہو گیا تھا لیکن ندا فاضلی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن جب وہ ایک مندر کے پاس سے گزر رہے تھے تبھی انہوں نے سورداس کی ایک نظم سنی جس میں رادھا اور کرشن کی علیحدگی کو بیان کیا گیا تھا۔ یہ نظم سن کر ندا فاضلی اتنے جذباتی ہو گئے کہ انہوں نے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ وہ بطور شاعر اپنی شناخت بنائیں گے۔

12 اکتوبر 1938 میں دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے گھر میں اردو اور فارسی دیوان کے مجموعے بھرے پڑے تھے۔ ان کے والد بھی شعر و شاعری میں دلچسپی لیا کرتے تھے اور ان کا اپنا ایک شعری مجموعہ بھی تھا، جسے ندا فاضلی اکثر پڑھا کرتے تھے۔ ندا فاضلی نے گوالیار کالج سے گریجویٹ کی تعلیم مکمل کی اور اپنے خوابوں کو ایک نئی شکل دینے کے لیے وہ سال 1964 میں ممبئی چلے گئے۔ یہاں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس درمیان انہوں نے دھرم يگ اور بلٹز جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کر دیا۔


اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے ندا فاضلی تھوڑے ہی وقت میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران اردو ادب کے کچھ ترقی پسند مصنفین اور شاعروں سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں ندا فاضلی کے اندر ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ انہوں نے ندا فاضلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی اور انہیں مشاعروں میں آنے کی دعوت دی۔ ان دنوں اردو ادب کی تحریروں کی ایک حد مقرر تھی۔ آہستہ آہستہ فاضلی نے اردو ادب کی حدود کو توڑتے ہوئے اپنی تحریر کا ایک الگ انداز بنایا۔

ندا فاضلی مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے جس سے انہیں پورے ملک میں شہرت حاصل ہوئی۔ ستر کی دہائی میں ممبئی میں اپنے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کر انہوں نے فلموں کے لئے بھی گیت لکھنا شروع کر دیئے لیکن فلموں کی ناکامی کے بعد انہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ تقریباً دس برسوں تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کےبعد ندا فاضلی کی 1980 میں ریلیز فلم ’آپ تو ایسے نہ تھے‘ کے اپنے نغمہ ’تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے‘ کی کامیابی کے بعد بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔


اس فلم کی کامیابی کے بعد ندا فاضلی کو اچھی فلموں کے آفر ملنے شروع ہوگئے۔ ان فلموں میں ’بیوی او بیوی، آہستہ آہستہ اور نذرانہ پیار کا‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ موسیقار خیام کی موسیقی میں آشا بھونسلے اور بھوپندر سنگھ کی آواز میں فلم آہستہ آہستہ کا یہ نغمہ ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘ ناظرین کے درمیان آج بھی بہت مقبول ہے۔ سال 1983 ندافاضلی کے فلمی کیرئیر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ فلم رضیہ سلطان کی تخلیق کے دوران نغمہ نگار جاں نثار اختر کی اچانک موت کے بعد فلمساز کمال امروہی نے ندا فاضلی سے فلم کے باقی گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ اس فلم کے بعد وہ بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں قائم ہو گئے۔

شہنشاہ غزل جگجیت سنگھ نے ندا فاضلی کے لئے متعدد نغمات گائے جن میں 1999 میں آئی فلم ’سرفروش‘ کا یہ نغمہ ’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے‘ بھی شامل ہے۔ ان دونوں فنکاروں کی جوڑی بہترین مثال ہیں۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعوں میں مور ناچ، ہم قدم اور سفر میں دھوپ ہوگی اہم ہیں۔ ادب اور فلمی دنیا کو اپنے نغموں سے مسحور کرنے والے ندا فاضلی آٹھ فروری 2016 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Oct 2019, 2:46 PM