گوہر رضا کی نظم: قید خانے

قید خانے کی فصیلوں سے ڈرانے والے، بھول جاتے ہیں کہ گر زندگی تلخ لگے، زہر لگے، جیل سے باہر اتنی، سانس دوبھر ہو کہ دم گھٹنے لگے...

<div class="paragraphs"><p>گوہر رضا کی نظم: قید خانے</p></div>

گوہر رضا کی نظم: قید خانے

user

قومی آواز بیورو

جب ڈر کی بیڑیاں ٹوٹتی ہیں تو ملک آزاد ہو جایا کرتے ہیں:

قید خانے کی فصیلوں سے ڈرانے والے

بھول جاتے ہیں کہ گر زندگی تلخ لگے

زہر لگے

جیل سے باہر اتنی

سانس دوبھر ہو کہ دم گھٹنے لگے

اتنی دوبھر ہو کہ

ہر حد سے گزر جانے کو دل بیتاب

ذہن سوچے

کہ انہی جیل کی دیواروں کے بیچ

پرچمِ ہند لئے ایک بھگت سنگھ اٹھ کر

پھیل جاتا ہے گلی کوچوں میں

گرامشی اٹھتا ہے

اور ساری حدیں ٹوڑ کے گرماتا ہے

ذہنوں کو نئی نسلوں کے

جولیس اٹھتا ہے

ہٹلر کے نہا خانوں سے

اور افریقہ کے جیلوں میں کہیں

ایک اسٹیو جنم لیتا ہے

یہیں منڈیلا کے پیروں سے کہیں

بیڑیاں ٹوٹ کے گرنے کی صدا آتی ہے

جیل میں خوف کی فصلوں کو اگانے والے

بھول جاتے ہیں وہیں

ہمت و عزم کی فصلیں بھی اگا کرتی ہیں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔