اپنے دور کا استاد شاعر امیر الشعرا منتظر امروہوی

منتظر امروہوی کا شعری ذوق اس قدر پروان چڑھا کہ اس دور کے ایک نہایت معیاری ادبی جریدے 'نگار' میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔

منتظر امروہوی
منتظر امروہوی
user

جمال عباس فہمی

اردو ادب کی دنیا میں بہت سے ایسے قلمکار گزرے ہیں جنہیں ان کی زندگی میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہ ہوسکا جس کے وہ مستحق تھے۔ غالب سے لیکر امروہہ کے استاد شاعر منتظر امروہوی تک ایسے شعرا کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کی قدر ان کے جیتے جی نہ ہوئی۔ انہیں وہ منزلت اور مرتبہ نصیب نہ ہوا جس کے وہ مستحق تھے۔ منتظر امروہوی اپنے دور کے مستند شاعر تھے۔ ان کے حلقہ تلامذہ میں ایسے ایسے شعرا رہے جنہوں نے بعد میں اردو ادب میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ جس دور میں علامہ اقبال، داغ دہلوی، حسرت موہانی، مولانا الطاف حسین حالی، جگر مراد آبادی، فانی بدایونی اور بیخود دہلوی جیسے شعرا بام عروج پر تھے، امروہہ میں منتظر امروہوی درجنوں سخن طرازوں کی تراش و خراش میں مصروف تھے۔

امیر الشعرا کے لقب سے مشہور منتظر امروہوی کے شعری مرتبے اور ادبی منزلت کا تٖفصیلی ذکر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ امروہہ میں اپنے دور کے خوش نویس اور ادبی ذوق کے حامل سید اختر حسین نقوی کے گھر میں 1885 میں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی، نام رکھا گیا سید اظفر حسین نقوی۔ سید اظفر حسین نقوی کا نسبی سلسلہ 38ویں پشت میں جاکر رسول اللہ سے ملتا ہے۔ امروہہ کے معروف صوفی اور کراماتی بزرگ سید حسین شرف الدین اظفر حسین 'منتظر امروہوی' کے مورث اعلیٰ تھے۔ جن کا کا سلسلہ نسب 19واسطوں سے ہوتا ہوا پیغمبر ختمی مرتبت سے جاکر ملتا ہے۔ سید حسین شرف الدین امروہہ کی نقوی سادات کے مورث اعلیٰ ہیں۔ شاہ ولایت کے نام سے مشہور حسین شرف الدین کی درگاہ آج بھی معجزے کی مظہر ہے۔ ان کے مزار کے احاطے میں بچھو کسی کو ڈنک نہیں مارتا۔


منتظرامروہوی کے والد کو نواب بھوپال کے دربار سے وابستہ ہونے کے سبب امروہہ کی سکونت ترک کرنا پڑی۔ وہ نواب صاحب کے فرزندوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ منتظر امروہوی کی ابتدائی تعلیم بھوپال میں ہی ہوئی۔ انہوں نے عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ خوش نویسی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ منتظر امروہوی کی اہلیہ باصرہ خاتون بھی غضب کا شعری ذوق رکھتی تھیں 'نور' تخلص رکھتی تھیں اور خود بھی شعر کہتی تھیں۔ باصرہ خاتون 'نور' کے والد زیرک حسین بھی شاعر تھے اور 'ذکی' تخلص رکھتے تھے، کچھ عرصہ بعد منتظر امروہوی بھوپال سے دہلی منتقل ہو گئے۔

دہلی میں ان کا شعری ذوق لائق حسین 'قوی' کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ منتظر امروہوی کا شعری ذوق اس قدر پروان چڑھا کہ اس دور کے ایک نہایت معیاری ادبی جریدے 'نگار' میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔ یہ معیاری ادبی جریدہ اپنے دور کے جید ادیب علامہ نیاز فتح پوری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ 'نگار' میں کلام کی اشاعت اس دور کے قلمکاروں کے لئے باعث فخر ہوا کرتی تھی۔ علامہ نیاز فتح پوری کے رسالہ 'نگار' سے اس دور کے معروف ادیب اور صوفی خواجہ حسن نظامی بھی وابستہ تھے۔ منتظر امروہوی کی ایک غزل نگار میں شائع ہوئی اور اس نے ادبی اور شعری حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ غزل کا مطلع تھا۔

اگر ملتے کہیں بازار میں تاثیر کے ٹکڑے

تو ہم ان سے بدلتے گردش تقدیر کے ٹکڑے

………..

اس غزل کا ایک شعر تو بہت زیادہ مقبول ہوکر زباں زد خاص و عام ہوا۔

اگر تم طیش میں آکر مرا خط پھاڑ بھی ڈالو

تمہارے پاؤں چومیں گے مری تحریر کے ٹکڑے


منتظر امروہوی نے اپنی عمر کے آخری حصے میں امروہہ میں ہی مستقل سکونت اخیار کر لی تھی۔ جہاں وہ شعرا کی نئی نسل کی آبیاری کرنے میں مصروف رہے۔ ان کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں حیات امروہوی جیسا زود گو بھی شامل ہے۔ جس نے نہایت کم عمری میں اپنی جولانی طبع کے جوہر دکھائے اور امروہہ کی نئی نسل کے شعرا کو بہت متاثر کیا۔ منتظر امروہوی کے دیگر شاگردوں میں مولانا عبادت حسین 'کلیم'، مصور حسین 'نجم'، ذیشان حسین 'شباب'، متین حسن 'محزوں'، ریحان امروہوی، ملکہ آفاق زمانی بیگم اور منور جہاں بیگم جونا گڑھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔عبادت حسین کلیم، حیات امروہوی اور ملکہ آفاق زمانی کے کلام کے مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔

منتظر امروہوی کے قریبی شعرا دوستوں میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، جگر مراد آبادی اور صحافی اور شاعر دیوان سنگھ مفتون شامل ہیں۔ یہ ادبی ہستیاں اکثر منتظر امروہوی سے ملاقات کے لئے دہلی اور امروہہ آتی تھیں اور شعرو سخن کی محفلوں کی رونق بنتی تھیں۔ دہلی کے قیام کے دوران منتظر امروہوی نے دیوان سنگھ مفتون کے رسالے 'ریاست' کی کتابت اور ادارت کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ 'ریاست' میں خود منتظر امروہوی کا کلام بھی شائع ہوتا تھا جس کے سبب ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ منتظر امروہوی نے اپنی شاگردہ ملکہ آفاق زمانی بیگم کے مجموعہ کلام 'باغ دلکشا' کی کتابت اور آرائش و زیبائش بھی کی۔ اس دوران منتظر امروہوی اپنے مجموعہ کلام کی کتابت اور ترتیب کا کام بھی کرتے رہے۔ 21 مارچ 1950 کو امروہہ کا یہ استاد شاعر دنیا سے رخصت ہوگیا۔


یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ منتظر امروہوی نے 65 برس کی عمر پائی۔ اور ان کے مجموعہ کلام کو منظر عام پر آنے میں بھی 65 برس ہی لگ گئے۔ 'گوہر شہوار' کے نام سے ان کی غزلیات کا مجموعہ 2015 میں شائع ہوسکا۔ جبکہ مجموعے کی کتابت اور تزئین کا زیادہ تر کام منتظر امروہوی اپنے ہاتھوں سے تقریباً مکمل کر گئے تھے۔ 'گوہر شہوار' کی اشاعت منتظر امروہوی کے بھانجے پروفیسر سید محمد رضا نقوی کی کوششوں کے سبب ہی ممکن ہوسکی۔ اس کو مبارک امروہوی نے ناشر نقوی امروہوی کی نگرانی میں مرتب کیا ہے۔ ناشر نقوی کے والد ناظر حسین 'ناظر' منتظر امروہوی کے بہت قریبی دوست تھے۔ منتظر امروہوی کے کلام کی اشاعت میں تاخیر کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ ملکہ آفاق زمانی نے اپنے استاد کا کلام اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔

منتظر امروہوی روایی لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کی شعری زبان سادہ اور شستہ ہے۔ سادگی ان کے کلام کا خاصہ ہے۔ انہوں نے ہر قسم کے مضامین باندھے لیکن موت اور اس کے متعلقات ان کا پسندیدہ موضوع تھے۔ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر ان کے کلام میں جا بجا ملتا ہے۔ اجل ان کے نزدیک سکون قلب کا باعث ہے۔

موت کیا ہے سکون قلب کا نام

زندگی اضطراب ہے دل کا

………

سکون قلب تھا دست اجل میں کیا مضمر

بغیر موت کے دل کو قرار آ نہ سکا

………

کاندھا بدل بدل کے گئے سب مزار تک

کتنا میں دوستوں کے لئے بار دوش تھا

………

تھکے ماندے پڑے ہیں رہروان منزل آخر

کسی کو بات کا یارا نہیں شہر خموشاں میں

………

منتظر جائے گی وحشت نہ مری بعد فنا

پس مردن بھی مرا چاک گریباں ہوگا

………

مرتے ہی انقلاب جہاں کس قدر ہوا

گلشن میں تھا مقام، بیاباں میں گھر ہوا

………

مانگی تھی موت ہجر میں آئی شب وصال

کس وقت جا کے میری دعا میں اثر ہوا

………

دشوار ہے کس درجہ رہ عشق کی منزل

مرنا بھی اگر چاہیں تو آساں نہیں ہوتا

………

عالم شہرخموشاں ہے زمانے سے الگ

جتنی آبادی بڑھی اتنا ہی ویرانہ ہوا

………

تھا اسی بات پہ دعوائے محبت سب کو

چھوڑ کر چل دیئے تنہا مجھے ویرانے میں

………

دشوار مرحلہ تھا مگر سہل ہو گیا

سبکی کے ساتھ ہونٹ ہلے جاں نکل گئی

………

مرتے ہی جتنے یار تھے اغیار ہو گئے

سب خاک میں ملانے کو تیار ہو گئے

………

کیا فرق ہے فقیر میں اور تاجدار میں

بعد فنا ہیں دونوں برابر مزار میں

………

آنکھ کھولی، غم اٹھائے، چل دیئے

اتنی سی مدت میں کیا کیا ہو گیا

………

داغ حسرت قبر میں بھی میرے دم کے ساتھ تھے

بعد مردن بھی مآل عشق در آغوش تھا

………

ہوتی نہیں تکمیل کفن کی کوئی صورت

جب تک کہ جدا تار گریباں نہیں ہوتا


منتظر امروہوی محمد و آل محمدؐ کے عشق میں سرشار تھے۔ عشق کی اسی سرشاری کی چھاپ ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔

غیر ممکن ہے دو عالم میں ملے اس کی مثال

جس کا سایہ بھی نگاہ خلق سے روپوش تھا

………

کعبہ کا قصد رکھتے ہیں سنتے ہیں منتظر

مجرا کریں گے جا کے رسالت مآب کو

………

دیکھیں تو کس طرح نہیں ملتا ریاض خلد

کچھ اشک بہر شاہ شہیداں نکالئے

………

کس کا گھر اجڑا ہوا یہ کون آوارہ وطن

آتی ہے آواز گریہ حلقہ زنجیر سے

منتظر امروہوی نے مشاہیر شعرا کی زمینوں میں بھی گلہائے سخن کھلائے ہیں۔ غالب کی مشہور غزل ہے۔

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منھ میں زباں کیوں ہو

اسی زمین میں منتظر امروہوی نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔

جو تم ہو مہرباں ہم پر جہاں نا مہرباں کیوں ہو

ہمارا گلشن امید ہم رنگ خزاں کیوں ہو

………

یہ سچ ہے ہم نوائی کا تعلق دل سے ہوتا ہے

اسے دشمن سے الفت ہے وہ میرا ہم زباں کیوں ہو

………

نہ کرنا دفن لاشہ کو جلا کر خاک کر دینا

مٹانا جب تمہیں منظور ہے نام و نشاں کیوں ہو

………

وہ مجھ کو قتل کرتے ہیں کریں کیوں دل پہ میل آئے

طبیعت مضمحل ان کی نصیب دشمناں کیوں ہو

………

جو ہو برباد خود ہی اس کو بربادی کا کیا کھٹکا

خزاں کا خوف اس کے دل میں ہنگام خزاں کیوں ہو

………

مجھے چھپنا نہیں منظور دنیا کی نگاہوں سے

جناب خضر پھر امید عمر جاوداں کیوں ہو

………

بدل جاتا ہے عالم منتظر جب آنکھ پھرتی ہے

وہ ہیں نا مہرباں آفاق مجھ پر مہرباں کیوں ہو


خواجہ الطاف حسین حالی کی ایک مشہور غزل کی زمین بھی منتظر امروہوی نے طبیعت کی جولانی دکھائی ہے۔ حالی کی غزل کا مطلع ہے۔'

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں

………

دل لے کے جانے چھپ گئی ان کی نظر کہاں

پھرتا رہوں تلاش میں کب تک، کدھر، کہاں

………

کہتے ہیں وہ کشش سے بلالو نہ اب ہمیں

اے جزب دل گیا ترا آخر اثر کہاں

………

صیاد چھوڑنے سے تو بہتر ہے ذبح کر

ہے بازؤں میں قابل پرواز پر کہاں

………

ہیں شام سے پھری ہوئی آنکھوں کی پتلیاں

جانے مریض ہجر کو ہوگی سحر کہاں

………

ان کی خوشی کہ ٹھوکریں کھاؤں جہاں میں

دیکھو تمام ہوتا ہے اپنا سفر کہاں

………

لکھتے نہیں وہ نام لفافے پہ بھی مرا

نامے کو لے کے جائے بھلا نامہ بر کہاں

………

ہے منتظر جہاں میں کوئی دم کا مہماں

دامن کشاں چلا ہے تو اے فتنہ گر کہاں

منتظر امروہوی کے کچھ اشعار تو بہت مقبول ہوئے۔

بس اتنا فرق ہے انسان میں اور اس کی تربت میں

وہ ہے اک ڈھیر مٹی کا، یہ ہے تصویر مٹی کی

………

لاکھوں میں بہر ظلم چنا اس نے دل مرا

کیونکر نہ داد دوں نظر انتخاب کو

………

میری حیات و موت کا قصہ بھی ہے عجیب تر

جتنا طویل ہے بیاں اتنا ہی مختصر بھی ہے

………

یہ کس کا ہاتھ ہے بہر تسلی قلب مضطر پر

تپش میں دل کی کیوں تخفیف پیہم ہوتی جاتی ہے

………

دل میں نہ جانے کتنی تھی مرنے کی آرزو

ہم خواب میں بھی تیغ و تبر دیکھتے رہے

………

بنائی قبر اس نے قتل کر کے اپنے کوچے میں

خدا کا شکر سمجھو لگ گئی مٹی ٹھکانے سے

………

قسمت کی نا رسائی کو مجھ سے نہ پوچھئے

سائے کی جستجو کی تو سوکھے شجر ملے

………

فطرت کا تقاضہ ہے کہ انساں سے خطا ہو

اب میرا گنہگار نہ ہونا بھی خطا ہے

………

طول شب فراق کا قصہ ہوا تمام

یہ مختصر ہوا تو بہت مختصر ہوا

منتظر امروہوی کی لوح مزار پر ان کا ہی یہ شعر تحریر ہے۔

مزار منتظر بن جائے گا یہ کام ہی کیا ہے

اگر ایک ایک مٹھی ڈال دیں رہگیر مٹی کی


منتظر امروہوی کا غزلیہ کلام تو سامنے آ ہی گیا ہے۔ توقع ہے کہ ان کا نعتیہ اور منقبتی کلام بھی جلد منظر عام پر آئے گا۔ منتظر امروہوی کا قلمی سرمایہ ادب نوازوں کے لئے بہت قیمتی ہے۔ امروہہ والے اس پر جتنا فخر کریں کم ہے۔ منتظر امروہوی کی شاعرانہ عظمت کو بھلے ہی تسلیم نہ کیا جائے لیکن انہوں نے اپنے زیر سایہ نئی نسل کے سخن گویوں کی جو پرورش و پرداخت کی اس گراں مایہ ادبی خدمت کو تو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔