پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857 کا مجاہد شاعر منیر شکوہ آبادی... یومِ آزادی کے موقع پر خاص

منیر کو پناہ کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ آخرکار منیر کو اکتوبر 1859 کو گرفتار کر لیا گیا اور تقریباً 9 ماہ قید فرنگ میں گزارے

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

شاہد صدیقی علیگ

منیر کی پیدائش شکوہ آباد میں 1814 کو ہوئی۔ ان کا نام سید اسماعیل حسین متخلص منیر تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اکبر آباد میں ہوئی جہاں ان کے والد سید احمد حسین نقوی بسلسلہ ملازمت رہائش پذیر تھے۔ پھر وہ لکھنؤ آ گئے۔ دبستان لکھنو کے شعری ماحول نے منیر کی طبیعت کو شاعری کی طرف مائل کر دیا۔ پہلے ناسخ سے مشورہ سخن کیا پھر سید علی اوسط رشک کی شاگردی اختیار کی۔ یہاں وہ نواب تجمل حسین خاں (فرخ آباد) کے متوسلین میں شامل ہو گئے، جہاں ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ لیکن نواب عالم شباب میں وفات پا گئے چنانچہ منتر نے کچھ برس نہایت پریشانی اور سرگردانی میں گزارے۔ بعد ازاں نئے ریاست فرماں روا نواب تفضل حسین خاں سے بھی گہرے ربط و ضبط پیدا ہو گئے۔ لیکن یک بعد دیگرے سانحہ پیش آنے کے بعد منیر کا دل فرخ آباد سے بالکل ملول ہو گیا۔

اسی اثنا میں نواب علی بہادر باندہ نے منیر کو باندہ مدعو کیا۔ لہٰذا انہوں نے وہاں جانے میں دیر نہیں لگائی۔ نواب صاحب نے انہیں اپنے کلام کی اصلاح پر مامور کیا اور دوسو روپے کا مشاہرہ مقرر کیا۔ اسی اثنا میں پہلی ملک گیر جنگ آزادی کا طبل بجا۔ نواب صاحب نے بھی برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کمپنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جنگی کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں منیر بھی شامل تھے۔ لیکن غداران وطن کے سبب انقلابیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نواب صاحب کو باندہ چھوڑنا پڑا تو منیر نے فرخ آباد کا رخ کیا۔ لیکن سقوط دلی کے بعد فرخ آباد پر بھی انگریزی فوج نے حملہ کر دیا، یہاں بھی انگریزی بہی خواہ اپنی کرتوت سے باز نہیں آئے۔ چنانچہ نواب تفضل حسین خاں نے فرخ آباد چھوڑ کر روہیل کھنڈ کی راہ لی۔


انگریز حکام نے نواب تفضل حسین خاں کے انتقام کا بدلہ ان کے خاندانی افراد کو اپنا غیض و غضب کا نشانہ بنا کر لیا۔ سیول کمشنر نے نواب تفضل حسین خاں کے حقیقی بھائی نواب اقبال مند خاں کو پھانسی دینے سے قبل ان کے جسم پر خنزیر کی چربی ملوائی اور پھر جاروب کشوں سے کوڑے لگوائے گئے۔

منیر نے اپنے مربی نواب اقبال مند خاں اور ان کے چچا زاد بھائی نواب غضنفر حسین خاں کی شہادت کی مشترکہ تاریخ لکھی۔ جو ان کے دل مجروج کی آواز ہے۔

اقبال مند خاں و غضنفر خاں حسین خاں

دونوں در محیط عطا آہ آہ ہائے

دونوں جوان نیک، امیران ذی حشم

مقتول تیغ تیز قفا آہ آہ ہائے

تاریخ ان کے قتل کی کافی ہے یہ منیر

دونوں شہید راہ خدا آہ آہ ہائے

منیر کو بھی پناہ کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ آخرکار منیر کو اکتوبر 1859 کو گرفتار کر لیا گیا اور تقریباً 9 ماہ قید فرنگ میں گزارے۔ اسی بیچ فرخ آباد کی ایک طوائف نواب جان کے قاتل مصطفیٰ بیگ نے اپنی جان بچانے کی خاطر قتل کا الزام منیر کے سر لگانے کے لیے ایسے جھوٹے شواہد برطانوی حکام کو دیے کہ منیر کو سزائے موت ہو جائے۔ لہٰذا انہیں دو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ایک حکومت وقت کے خلاف بغاوت دوسرا نواب جان کے قتل کا۔ الحاصل جنگ آزادی میں حصّہ لینے کے جرم میں منیر کو 6 جولائی 1960 کو 7 سال سزائے قید بہ عبور دریائے شور سنائی گئی۔ منیر کا جہاز جولائی 1860 کی کسی تاریخ کو لنگر انداز ہوا۔


غربت میں دشمن خانہ بدوشوں کو ملا

زہر غربت شکر فروشوں کو ملا

جب لخت جگر کھا کے لگی پیاس

منیر کالا پانی سفید پوشوں کو ملا

منیر انڈمان جزائر کے انتہائی نامساعد حالات کا اپنے مشفق کو لکھے ایک خط میں یوں رقم کرتے ہیں، ’’جلاوطنی سب سے بڑی بلا ہے، میں اس جلاوطنی میں مبتلا ہو کر وحشت ناک جزیرہ میں ہوں کہ جس کا نام سن کر بھوت و پریت بھی سو سال کی مسافرت پر بھاگ جاتے ہیں، میں اس کے مصداق ہو گیا کہ جس میں نہ موت آتی ہے نہ زندگی معاذاللہ۔ اس مقام یا جزیرہ میں ہر لہجہ میں ایک ناگہانی آفت اور ہر لمحہ ایک آسمانی بلا کا امیدوار بنا رہتا ہوں۔‘‘

پانچ سال کی ہولناک اور اذیت ناک سزا کاٹنے کے بعد منیر کو 8 جولائی 1865 رہائی نصیب ہوئی۔ منیر الٰہ آباد لکھنو اور آگرہ میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد نواب کلب علی خاں رام پور کے دربار سے وابستہ ہو گئے اور جہاں انہوں نے دس سال چین و سکون سے بسر کیے۔ آزادی کا مجاہد شاعر منیر 10 اگست 1880 کو جہدوجد کی تھکاوٹ سے فارغ ہو کر ہمیشہ کی راحت پا گیا۔

منیر نے پہلی ملک گیر تحریک آزادی میں عملی طور پر حصہ لیا اور اپنی شاعری میں محاربہ عظیم اور اس کی ناکامی کے بعد رونما ہوئے روح فرسا واقعات کے احوال و کوائف کا مفضل بیان کیا ہے۔ کیونکہ وہ نہ صرف ان درد ناک مصائب کے چشم دید گواہ تھے بلکہ ان کو جھیلا بھی۔ منیر نے انڈمان و نکوبار جزائر کے شب و روز کو جس طرح شعری قالب میں ڈھالا ہے وہ ایک دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔