مشاعرے سُونے کر گئے انور جلال پوری

انور جلال پوری کلام کے ساتھ اپنی تقریرمیں ایسے رنگ بھرتے کہ سامعین میں ایک وجد کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی جس سے محفل مشاعرہ جگمگا اٹھتی۔

تصیور سوشل میڈیا
تصیور سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

اردو مشاعروں کا درخشاں ستارہ انور جلال پوری آج لکھنؤ میں دم توڑ کر ڈوب گیا۔ انور جلال پوری خود تو ایک بلند پایۂ شاعر تھے ہی۔ لیکن اردو شاعروں کی نظامت کا جو فن ان کے ساتھ منسلک تھا ان کی موت سے اردو کی اس روایت کو بھی سخت دھکا لگا ہے۔ اردو مشاعروں میں اگر شعراء اپنے کلام سے دھوم مچاتے ہیں تو مشاعروں کا ناظم بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔اکثر ناظم مشاعرہ اپنے فن نظامت سے مشاعرہ میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ انور جلال پوری ایک ایسے ہی ناظم مشاعرہ تھے جنہوں نے ملک زادہ منظور احمد کی موت کے بعد فن نطامت کو خوب سنبھالا تھا۔

انور جلا ل پوری نے اردو میں کئی کتابیں لکھیں ۔ ان کی چند کتابوں مثلاً ’راہ رو سے رہنما‘ اردو شاعری میں ’گیتا نجلی‘، اردو شاعری میں گیتا کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔ نرم لہجہ میں انور جلال پوری جب اپنا کلام سناتے تو مشاعرہ میں سامعین ہمہ تن گوش رہتے۔ اور جب وہ کسی شاعر کو دعوت ِ سخن دیتے تو ان کا اپنا ایک انداز ہو تا تھا۔ کبھی چاشنی کے ساتھ بزرگ اور استاد شعراء کے قصےّ تو کبھی کسی یادگار مشاعر ے کا ذکر تو کبھی استادوں کے کلام کے ساتھ اپنی تقریر میں رنگ بھر کر وہ مشاعروں میں ایک وجد پیدا کر دیتے جن سے محفل مشاعرہ جگمگا اٹھتی۔ وہ اس فن میں اس قدر یکتا تھے کہ فلم ’ڈیڑھ عشقیہ‘ میں انہوں نے ایک مشاعرہ کی نظامت کا کردار بھی ادا کیا۔ انور جلال پوری فلموں اور ٹی وی سیریل کی اسکرپٹ بھی لکھی۔

یقیناً آج لکھنؤ میڈیکل کالج میں انور جلال پوری کی موت کے بعد محفل مشاعرہ سونی ہو گئی۔ اب اس شاعر اور ناظم مشاعرہ کے بعد مشاعروں میں چار چاند لگانے والی آواز کو ڈھونڈنے میں کچھ وقت تو ضرور لگے گا۔ ان کے شائقین کے لئے ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

تم پیار کی سوغات لئے گھر سے نکلو

راستے میں تمہیں کو ئی دشمن نہ ملے گا


ہر دم آپس کا یہ جھگڑا ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کل کیا ہوگا شہر کا نقشہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ایک خدا کے سب بندے ہیں، ایک آدم کی سب اولاد

تیرا میرا خون کا رشتہ ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

حال میں ہی اپنی بیٹی نزہت کے انتقال کے بعد وہ کچھ بے حال سے ہو گئےتھے ۔ بیٹی کے چالیسویں میں شرکت کے بعد وہ جب سے لکھنؤ لوٹے تو کچھ علیل سے رہتے تھے ۔ جلدی بیمار پڑے اور لکھنؤ میڈیکل کالج میں بھرتی ہوگئے۔ جہاں ان کے دماغ میں منجمد خون ملا اور پھر وہ ایسےمشینوں کے حوالے ہوئے کہ آخر آنکھ ہی بند ہوگئی۔

اردو دنیا آج ان کے غم میں ڈوبی ہے اور فیس بک اور ٹوئٹر پر ان کے چرچے ہیں ۔ پیش ہے سوشل میڈیا پر ان کے متعلق چند رائے:

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔