اُردو کے معروف شاعرجعفر ساہنی کا انتقال
شمس الرحمن فاروقی نے جعفر ساہنی کی شاعری کی عظمت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’آپ شب خون کے پرانےلکھنے والے ہیں،میں ہمیشہ سے آپ کا مداح رہا ہوں،نئےمضامین نکالنا اورنئی طرح پیدا کرنا آپ کا خاصّہ ہے‘‘۔
کلکتہ: کلکتہ کے مشہور اردو میڈیم اسکول محمد جان اور پریڈنسی مسلم ہائی اسکول کے سابق استاد اور معروف شاعر جعفر ساہنی کا کل شام گھر میں گرجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔وہ گزشتہ کئی برسوں سے صاحب فراش تھے ۔
خاندان والوں کے ذرائع کے مطابق جعفر ساہنی کل گھر میں ہی عصر کی نماز کی تیار ی کررہے تھے کہ اچانک گر گئے اور چند منٹوں میں ہی ان کی روح پرواز کرگئی ۔5جنوری 1941میں بہار کے بیگوسرائے ضلع کے لکھمنیاں گاؤں میں پیدا ہونے والے جعفر ساہنی نے زندگی کے زیادہ تر ایام کلکتہ ہی میں گزارے۔طالب علمی اور اس کے بعد معلمی کے پیشہ سے وابستہ ہوگئے اور ریٹائٹر منٹ کے بعد کلکتہ میں سکونت کو باقی رکھا ۔پسماندگان میں تین بیٹوں کے علاوہ دوبیٹیاں ہیں، اہلیہ کا پچھلے سال ہی انتقال ہوا ہے ۔
جعفرساہنی کے دوشعری مجموعے ’ہواکے شامیانے میں‘ اور ’شاید‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے زیر اہتمام بالترتیب 2010 اور 2012 میں شائع ہوئے۔ دونوں ہی مجموعے ادب نواز حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ زبیررضوی مرحوم نے ’ہوا کے شامیانے میں‘ کے مقدمہ میں جعفر ساہنی کو ’زندگی کے پرتو اورپرچھائیں کا شاعر‘قراردیاہے ۔
دو شعری مجموعوں (’ہوا کے شامیانے میں‘ اور’شاید‘) کے خالق جعفر ساہنی کی تخلیقات برصغیر کے تمام ادبی رسالوں(بشمول شب خون، ذہن جدید، ابلاغ، آجکل، ایوان اردو، شاعر) میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے جعفر ساہنی کی شاعری کی عظمت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’آپ(جعفر ساہنی) شب خون کے پرانے لکھنے والے ہیں، میں ہمیشہ سے آپ کا مداح رہا ہوں، نئے مضامین نکالنا اور ان میں بھی نئی طرح پیدا کرنا آپ کا خاصّہ ہے‘‘۔
جعفر ساہنی کے انتقال پر کلکتہ کے علمی وادبی حلقے نے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایک نسل کو تعلیم اور تربیت سے نوازا ہے کہ اس کے علاوہ کلکتہ کی شاعری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے جس کیلئے وہ مدتوں تک یاد رکھے جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔