رثائی ادب کا بے لوث خادم۔ ہلال نقوی

آج ایک ایسے قلمکار کا ذکر مقصود ہے جو کثیر پہلوئی شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ 'ماہر جوشیات' بھی ہے اور رثائی ادب کا بے لوث خادم بھی

<div class="paragraphs"><p>ہلال نقوی / تصویر جمال عباس فہمی</p></div>

ہلال نقوی / تصویر جمال عباس فہمی

user

جمال عباس فہمی

آج ایک ایسے قلمکار کا ذکر مقصود ہے جو کثیر پہلوئی شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ 'ماہر جوشیات' بھی ہے اور رثائی ادب کا بے لوث خادم بھی۔ وہ جدید لہجے کا مرثیہ گو بھی ہے اور محقق اور مضمون نگار بھی۔ وہ تنقید نگار بھی ہے اور تدوین و ترتیب کا ماہر بھی۔ گوناگوں صلاحیتوں کے ماہر اس قلمکار کو رثائی ادب کی دنیا ڈاکٹر ہلال نقوی کے نام سے جانتی ہے۔ جوش کے سلسلے میں مختلف النوع قلمی خدمات کے باعث اس کو 'ماہر جوشیات' کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔ ہلال نقوی کی جڑیں ہندوستان کی ادبی بستی امروہہ میں ہیں۔ ان کے والدین امروہہ سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ ہلال نقوی کی ادبی خدمات کے وسیع و عریض گلستان کی سیر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ہلال نقوی کا مکمل نام سید ہلال رضا نقوی ہے۔ وہ 18 فروری 1948 میں امروہہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے کی فرد کی حیثیت سے پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والد سید مزمل حسین نقوی امروہہ کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ جدید مرثیے کے بانی نسیم امروہوی کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ نسیم امروہوی موروثی مرثیہ نگار ہیں۔ ان کے والد برجیس حسین، دادا شمیم امروہوی جنہیں 'فرزدق ہند' کہا جاتا ہے اور دادا کے والد خادم حسین بھی شاعر اور مرثیہ نگار تھے۔ نسیم امروہوی کے فرزند قسیم امروہوی بھی مرثیہ نگار ہیں۔ اس تعلق سے ہلال نقوی کے مرثیہ اور مرثیہ نگاری سے عشق کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

ہلال نقوی کی ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے مسلم اسکول میں ہوئی۔ انہوں نے انٹر میڈیٹ اور گریجویشن کراچی کے سراج الدولہ کالج سے کیا۔ جبکہ 1973 میں اردو میں ایم اے کراچی یونیورسٹی سے کیا۔ ہلال نقوی نے 1985 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی مقالہ کا عنوان 'بیسویں صدی اور جدید مرثیہ' تھا ۔ ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ مقالہ مرثیہ سے ان کے عشق کا ایک اور ثبوت ہے۔ 1974 میں وہ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیں۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے۔ آج بھی ان کی نگرانی میں اردو ریسرچ اسکالرز اپنے تحقیقی مقالے تیار کرتے ہیں۔

ہلال نقوی کا ادبی ذوق طالب علمی کے دور میں ہی جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین جیسی قدآور شخصیتوں کی صحبتوں میں پروان چڑھ چکا تھا۔ ہلال نقوی نے 1967 میں شاعری شروع کی۔ ابتدا غزل سے ہوئی لیکن ان کا میلان نظم گوئی کی طرف ہو گیا۔ مرثیہ گوئی کا شوق جوش ملیح آبادی کے مرثیے پڑھنے اور سننے سے پیدا ہوا۔


جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی اور پروفیسر مجتبیٰ حسین شعر و شاعری اور تنقید و تحقیق میں ان کے استاد رہے۔ ہلال نقوی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جوش ملیح آبادی نے انہیں اپنا اولین شاگرد کہا ہے، جبکہ نسیم امروہوی انہیں اپنا 'معنوی فرزند' کہتے تھے۔ نظم ہو کہ نثر ہلال نقوی نے ادب کے ہر شعبہ میں اپنی انفرادیت کا نقش ثبت کیا ہے۔ مرثیہ گوئی میں انہوں نے ایک اختراع کی جس پر رثائی ادب کے حلقوں میں کافی لے دے مچی۔ انہوں نے روایتی مرثیہ کے بند کے تیسرے مصرعے کو پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے کے قافیہ کی قید سے آزاد کر دیا۔

‘آواز’ کے عنوان سے ان کے نظم کردہ مرثیے کے مقطع کا یہ بند دیکھئے:

ہیں دور گرچہ روضہ مظلوم سے ہلال

لیکن یہ سوچ کر نہ رہا دل کبھی نڈھال

یہ جو بکا بدوش صبا ہے رواں دواں

یہ بھی ہے زائرین کی صف میں بصد ملال

سو دوریوں میں قرب شہ مشرقین ہے

آواز بھی مجاور قبر حسین ہے

یہ بھی حقیقت ہے کہ مرثیہ گوئی میں ان کی پیروی کرنے کی جراْت ابھی تک کسی مرثیہ گو نے نہیں دکھائی ہے۔ انہوں نے موضوعات کے معاملے میں بھی تنوع سے کام لیا ہے۔ مثال کے طور پر امام حسین کے لشکر کے علمدار حضرت عباس کے حال کے مراثی میں شعرا نے ان کی وفاداری، امام حسین اور بھتیجی بی بی سکینہ سے ان کی والہانہ محبت کو موضوع بنایا ہے لیکن ہلال نقوی نے حضرت عباس کے ہاتھوں کو موضوع بنایا۔ جنگ کے دوران حضرت عباس کے ہاتھ قلم کر دئے گئے تھے۔ 'ہاتھ' عنوان کے مرثیہ کا یہ بند دیکھئے:

دست حسین ابن علی زندگی کا ہاتھ

فریاد رس کا ہاتھ، عدالت رسی کا ہاتھ

صبح یقیں کے لمحہ حد نمود پر

کردار کے افق پہ شفق آدمی کا ہاتھ

یہ ہاتھ ہر عروج و شرف میں علم رہا

اس کی جلو میں گنبد آفاق خم رہا

ہلال نقوی نے مراثی کے ساتھ ساتھ سلام، نوحے، رباعیات اور قطعات بھی نظم کئے ہیں لیکن ان کی پسندیدہ صنف سخن نظم ہے۔ انہوں نے رثائیہ، مدحیہ، رومانی اور اصلاحی نظمیں کہیں۔

ان کا نظم کردہ ایک نوحہ بہت مقبول ہے جس کا مکھڑا ہے:

کیا خبر تم نہ رہو

کیا خبر ہم نہ رہیں

آؤ اک کام کریں

کربلا عام کریں

مولا علی کے چاہنے والوں کی مولا علی کی سیرت و کردار سے دوری سے ہلال نقوی بہت رنجیدہ خاطر ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ضمیر کو کچوکے لگانے والی نظم کہی۔

علی کی مجلس

علی کا ماتم

علی پہ رونا

یہ سب روا ہے، یہ سب بجا ہے

مگر بتاؤ

علی کی سیرت

علی کا سجدہ

علی کا مقصد

ہمارے لوگوں میں کیوں نہیں ہے

جواب دے دو اگر کہیں ہے

سوال چپ ہے

خیال چپ ہے

ہلال چپ ہے


انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات، اولادوں کی مختلف ملکوں میں رہائش اور اپنی تنہائی کے کرب پر ایک پرسوز نظم کہی۔ ملاحظہ کیجئے نظم 'یہ کیسی ہجرتیں ہیں'

کراچی سے کینیڈا تک

بہت ہے فاصلہ لیکن

یہ رشتوں کی ہیں زنبجیریں

یہاں جو کھینچ لاتی ہیں

مرا بیٹا یہاں پر ہے

وہ مجھ سے دور ہے لیکن

سمندر اس کا ہمسایہ

سمندر سے گزر کر پھر مجھے رستہ بچھانا ہے

مری بیٹی ہے مسقط میں

وہاں بھی مجھ کو جانا ہے

کراچی میں مگر وہ بے خراماں ہم سفر میری

سپرد خاک جس کو کر دیا تھا چشم پر نم نے

کئی برسوں سے وہ خاموش ہے، چپ ہے

وہ گہری نیند میں ہے

میں مسلسل اس سفر میں ہوں

یہ کیسی ہجرتیں ہیں

کدھر جاؤں، کہاں ٹھہروں

مری تنہائی کا صحرا مجھے آواز دیتا ہے

رثائی ادب کے حوالے سے ہلال نقوی کی نثری کاوشیں بھی ادبی کارنامے ہیں۔ انہوں نے نسیم امروہوی، علامہ جمیل مظہری، ڈاکٹر یاور عباس، باقر امانت خانی اور جوش کے انقلابی مرثیوں کی تدوین و ترتیب کی۔ انہوں نے 'جدید مرثیے کے تین معمار'، 'مرثیے کی نایاب آوازیں' اور 'جدید بیاض مرثیہ' جیسی بیش قیمت کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اپنی ادارت میں نکلنے والے رسالے 'رثائی ادب' کے میر انیس اور مرزا دبیر پر خصوصی نمبر شائع کر کے رثائی ادب کو مالامال کیا۔ 'انیس نمبر' میں انیس کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر سو مضامین شامل ہیں۔ انہوں نے تین جلدوں میں 'کلیات جوش' ترتیب دی جس میں جوش کے تمام 28 شعری مجموعوں کو یکجا کر دیا۔ انہوں نے جوش کی انشا پردازی کے شاہکار 'یادوں کی برات کے گمشدہ اوراق' اور اس کے قلمی نسخے کو شائع کیا۔ انہوں نے 'عرفانیات جوش'، 'اوراق جوش' اور 'انتقادیات جوش' جیسی کتابیں لکھ کر جوش شناسی کے نئے پہلو اجاگر کئے۔ ہلال نقوی نے جوش کی نادر اور غیر مطبوعہ تحریروں کو بھی یکجا کیا ہے۔ جوش سے ہلال کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے جوش کی ذات سے مخصوص علمی، ادبی اور تحقیقی جریدہ ہی شائع کر دیا۔ 'جوش شناسی' کے عنوان سے اس جریدے کے سات شمارے شائع ہو چکے ہیں جو 'جوشیات' کے حوالے سے دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج تک اردو کے کسی ادیب کی شخصیت اور شاعری سے لوگوں کو مختلف زاویوں سے متعارف کرانے کے لئے باقاعدہ کوئی جریدہ شائع نہیں ہوا ہے۔ جوش خوش نصیب ہیں ان کے شاگرد نے اپنے استاد سے دنیا کو روشناس کرانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔


ادھر ادبی ماہنامہ 'سخنور' کے ایڈیڑ نقوش نقوی نے ہلال نقوی کی شعری اور نثری کائنات کو یکجا کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ 'سخنور' کا 'ڈاکٹر ہلال نقوی نمبر' کا پہلا حصہ شائع ہو چکا ہے جبکہ دوسرا حصہ ہلال نقوی کی تحقیقی و تنقیدی تحریروں، ہلال نقوی کی شاعری اور ان کے متعلق ان کے احباب اور اہل قلم حضرات کے مضامین پر مشتمل ہوگا۔ 'ماہنامہ سخنور' کے ڈاکٹر ہلال نمبر کا پہلا حصہ ہلال نقوی کے نام اردو ادب کی مختلف ہستیوں کے خطوط پر مشتمل ہے۔ اس میں نسیم امروہوی، جوش، قمر رئیس، تقی عابدی اور انیس اشفاق سمیت 224 ادبی ہستیوں کے ساڑھے پانچ سو سے زیادہ خطوط شامل ہیں۔ نسیم امروہوی کے خطوط میں خطوط غالب سے زیادہ ادبی معلومات کا خزانہ ہے۔ غالب کے خطوط سے تو 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد کے دہلی کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کا علم ہوتا ہے لیکن ہلال نقوی کے نام نسیم امروہوی کے خطوط سے ادبی رجحانات، انقلاب روس کے بعد ادبی فضا میں تبدیلی بالخصوص مرثیوں کی موضوعاتی تبدیلیوں کا علم ہوتا ہے۔ نسیم امروہوی کے خطوط سے اس راز سے بھی پردہ ہٹتا ہے کہ جدید مرثیہ کی ابتدا کا سہرا کس کے سر ہے۔

نسیم امروہوی کے ایک خط سے ان کی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اصل وجہ بھی معلوم ہوتی ہے۔ نسیم امروہوی کو ایک انقلابی مسدس لکھنے کی وجہ سے گرفتاری کا سامنا تھا۔ مسدس لکھنے کے دس برس بعد ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے تھے۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے انہیں راتوں رات پاکستان ہجرت کرنا پڑی تھی۔ اسی چکر میں وہ اپنے کلام کا بیشتر سرمایہ بھی اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے تھے۔ ہلال نقوی کے نام نسیم امروہوی کے خطوط اس نوعیت کے ہیں کہ ان کی مدد سے بدلتے ادبی رجحانات اور جدید مرثیہ کے موضوع پر تحقیقی مقالے تیار کر کے اسکالرز پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر سکتے ہیں۔

بذات خود ایک ادبی ادارے کی حیثیت رکھنے والے 76 سالہ ہلال نقوی کا قلم ابھی جوان ہے۔ مختلف موضوعات پر ان کی کئی کتابیں تیاری کے مراحل میں ہیں اور کچھ اشاعت کی دہلیز پر کھڑی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔